|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گوجرانوالہ|
گوجرانولہ کے طلبہ بہت بڑی تعداد میں لاہور یا گجرات اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے طلبہ کو ہمیشہ سے سرکاری یونیورسٹی سے محروم رکھا گیا ہے۔ 1987 میں گوجرانوالہ میں ”سر سید یونیورسٹی“ کے لیے بہت بڑی تحریک چلائی گئی تھی جس کا نعرہ یہ تھا کہ”سرسید یونیورسٹی گوجرانوالہ کا حق ہے“۔ لیکن سرسید یونیورسٹی گوجرانوالہ میں نہیں بنائی گئی۔ اس کے لیے مختص جگہ کو قائد اعظم ڈویژنل پبلک سکول کو دے دیا گیا اور اس کو بنانے کے لیے بھی تمام سرکاری سکولوں اور کالجوں میں بچوں سے ہر ماہ فیس کے ساتھ دس روپے کا جبری ٹیکس اس سکول کے لیے وصول کیا گیا، کہ بہت بڑا”پبلک“ سکول بن رہا ہے۔ یوں غریبوں کے چندے سے شرفا کے بچوں کے لیے ایک سکول بنا دیا گیا۔ جس میں داخلے کا خواب اس غریب کا بچہ نہیں دیکھ سکتا، جس نے گوجرانوالہ میں یونیورسٹی کے خواب کی تکمیل کے لیے اپنی جیب سے چندہ دیا تھا۔ کیوں داخلے کیلئے ایک جانب تو انتہائی مشکل ٹیسٹ رکھے گئے، جو اس کلاس کے سال بعد کے آبجیکٹیوز کے برابر تھے، جس میں کہ بچے کو داخل کروانا مقصود تھا۔ فیل ہونے کی صورت میں لمبی چوڑی ڈونیشن دو۔
اس کے بعد بھی ایک بار یونیورسٹی آف گجرات کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ یہ یونیورسٹی مبینہ طور پر گوجرانوالہ کے لیے منظور ہوئی تھی لیکن چوہدری برادران کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کو گجرات میں بنانا پڑ گیا۔
اب ہزاروں طلبا و طالبات گوجرانوالہ سے اپنی تعلیم کی تکمیل کیلئے روزانہ لاہور اور گجرات جانے پر مجبور ہیں۔ یونیورسٹی آف گجرات جانے والے طلبہ کے لیے 8 بسیں مختص کی گئی ہیں لیکن پھر بھی سفر کے سلسلے میں ان کو نہایت مشکلات درپیش ہیں۔ ان کو ہاسٹلز بھی نہیں ملتے، سارا دن آنے جانے میں لگ جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے گھروں میں ہاسٹل بنا رکھے ہیں، جن میں رہائش مہنگی ہونے کے باوجود طلبہ کی ضرورت کے مطابق سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں اور ویسے بھی شہر سے دور ایسے ہاسٹلز خطرے سے خالی نہیں۔
لاہور جانے والے طلبہ کا بھی یہی حال ہے یا تو ہاسٹل میں رہنا پڑتا ہے یا روزانہ بسوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیاں محنت کشوں کے بچوں کی آخر ی امید ہوتیں ہیں۔ کیونکہ مہنگی نجی یونیورسٹیوں کے بارے میں یہ بچے تو سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہماری سرکاریں پہلے تو سرکاری کالجز کو یونیورسٹیوں کا نام دے رہے تھے اور جب ان حالات میں نئی یونیورسٹیاں کھولنے کی ضرورت ہے تو”سب کیمپسز“ کو یونیورسٹی کا مکھوٹا پہنایا جا رہا ہے۔
ہمارے مطالبے مندرجہ ذیل ہیں۔
1- سب کیمپسز کو یونیورسٹیاں بنانے کا نوٹیفکیشن فوری واپس لیا جائے۔
2- گوجرانوالہ میں نئی یونیورسٹی بنائی جائے۔
3- پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ میں پڑھنے والے طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔
4- سرکاری ہاسٹلز فراہم کیے جائیں۔
5- یونیورسٹی کے سامنے فلائی اوور بنایا جائے۔