گوجرانوالہ: خواتین کے عالمی دن پر’’ طالبات اور محنت کش خواتین کو درپیش مسائل اور ان کا حل‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گوجرانوالہ|

8 مارچ کا دن پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے گوجرانوالہ میں پی وائی اے اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے پلیٹ فارم سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔جس میں مختلف کالجوں، یونیورسٹیوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور شرکت کی۔ اس تقریب کو چئیر کامریڈ سحر وا ئیں نے کیا۔ تقریب کاآغاز فیض احمد کی مشہور نظم ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے “ سے کیا گیا۔

اس کے بعد پی وائی اے کی کارکن سلمیٰ نے بتایا کہ آٹھ مارچ کا دن محنت کش خواتین کا عالمی دن ہے جس کو فیمینیسٹ اور لبرلز نے ہائی جیک کر لیا ہے۔جس کے لئے بورژوا خواتین بھر پوری تیاریاں کرتی ہیں۔اورمختلف ٹالک شوز کی اینکر پرسنز اپنے زرک برق لباسات پہنے اس دن کو مناتی ہیں۔ سلمیٰ نے 8 مارچ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ محنت کش خواتین کی جدوجہد بہت طویل ہے۔ 1910 ء میں روس کی محنت کش خواتین نے 8 مارچ کے دن عظیم جدوجہد کے نتیجے میں ووٹ کا حق حاصل کیا، اس کے بعد یہ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کے بعد سلمیٰ نے نجی سکولوں میں پڑھانے والی محنت کش خواتین کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔

اس کے بعد ایک ماہرنفسیات اور لیکچرار نے خواتین کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے اس پر بات چیت کی جائے۔ ریڈورکرز فرنٹ کی کارکن ناصرہ وائیں نے خواتین کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو عورتیں سماجی اور ثقافتی رسموں رواجوں کی بھٹی میں جل رہی ہیں اور مذہبی جکڑ کے باعث بے تحاشہ عورتیں گھروں میں مقید ہیں اور وہیں دوسر ی طرف جو خواتین حالات سے مجبور ہوکر محنت کرنے کیلئے باہر نکلتی ہیں ان کو ہراسانی جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کے مسائل پر اول تو بات ہوتی نہیں ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو وہاں ہمیں لبرل اور فیمینسٹ موقف نظر آتا ہے۔ جن کے مطابق عورت پر ہونے والے جبر کی وجہ صرف اور صرف مرد ہے۔ اور عور ت کی آزادی کی جدوجہد کو محض مرد سے آزادی قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ آج پوری دنیا میں تمام محنت کش مرد اور خواتین جبر اور ظلم کا شکار ہیں۔اور اس ظلم و جبر کا ذمہ دار یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے عورت کے ساتھ مرد کو بھی اپنی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ پدر شاہی کے تحت بنائے گئے سماجی رشتوں کی شکل میں خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ آج کے جدید دور میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے وہیں رجعت اور پسماندگی بھی اپنے عروج پر ہے جس کی وجہ صرف اور صرف استحصالی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اور اس نظام کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ یہ سماجی بناوٹ قائم رہے۔ اس استحصال پر مبنی نظام کو بدلے بغیر عورت کو حقیقی معنوں میں آزادی نہیں مل سکتی۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے حق کیلئے آواز بلند کریں اور سماج کو بدلنے کی مشترکہ جدوجہد کا حصہ بنتے ہوئے اپنے محنت کش مرد ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان مسائل کا خاتمہ کریں۔

اس کے بعد جاسیہ نے طالبات کے مسائل کے بارے میں بات کی۔اور اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ سحر وائیں نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تعلیمی اداروں میں خواتین کو درپیش مسائل کا ذکر کیا۔ سحرنے تعلیم اداروں میں ہونے والی ہراسانی اور دیگر مسائل جیسے ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی سہولت کی خستہ حالی کی بات کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے ان مسائل سے طالبات کو مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں۔ اس کے بعد پنجاب یو نیورسٹی کے ایل ایل بی کے طالب علم عمر نے کہا کہ عورتوں کو اپنے مسائل پر آواز اٹھانی چاہیے۔

اس کے بعد ریڈورکرز فرنت کے کارکن صبغت وائیں نے سرمایہ دارانہ استحصال پر بات کرت ہوئے کہا کہ اس نظام میں استحصال کی بنیاد طبقاتی فرق پر استوار ہے۔ سرمایہ دار طبقہ محنت کش طبقے ک استحصال کرتاہے۔ استحصال کرنے والے سرمایہ دار طبقے میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی اور استحصال کا شکار ہونے والے محنت کش مرد اور خواتین ہیں۔

آخر میں لال سلام کے مرکزی رہنما آدم پا ل نے بتایا کہ سرمایہ دار محنت کشوں کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ عورتوں کی سماجی حیثیت کے باعث عورتو ں اور حتیٰ کہ بچوں سے مردوں کے مقابلے میں کم اجرتوں پر کام لیا جاتا ہے۔ تاکہ سرمایہ داروں کے منافع میں اضافہ ہوسکے۔عورت جتنی زیادہ محکوم رہے گی سرمایہ دار کو اس کا اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس لیے یہ سرمایہ دار اور ان کے ریاستی ٹاؤٹ وزیر،جرنیل اورسرمایہ داروں کے پیسوں پر پلنے والے مذہبی لیڈر یہ چاہتے ہیں کہ عورت محکوم رہے اور یہ لوگ اپنی تجوریاں بھرتے رہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرروت ہے کہ ریاست سرمایہ دار وں کی دلالی پر مبنی ایک ادارہ ہے جس کا کا م سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔ امیر اور غریب کا فرق ختم کرنے کیلئے ہمیں جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ آدم پال نے روس میں آنے والے 1917 ء کے انقلاب کے بعد خواتین کی حاصلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے بعد عورت کو گھریلو غلامی سے نجات مل گئی تھی۔ مشترکہ نرسریاں بنائیں گئی تھیں۔مشترکہ کچن تھے اور مشترکہ لانڈریاں تھیں جہاں مرد اور خواتین مل کر کام کرتے تھے۔ تعلیم مفت تھی اور اٹھارہ سال کی عمر والے نوجوانوں کو گھر، روزگار اور باقی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی۔اب ہمیں بھی ایسے ہی نظام کی جدوجہد کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔تاکہ اس استحصال پر مبنی نظام کو بدلا جاسکے اور تمام تر مسائل کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک حقیقی انسانی سماج تعمیر کیا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.