|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|
نجی تعلیمی اداروں سے منسلک عمومی سوچ یہی پائی جاتی ہے کہ وہاں سٹوڈنٹس کے نخرے اٹھائے جاتے ہوں گے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل متضاد ہے۔ مال بنانے کی خاطر قائم کیے گئے ایسے تعلیمی ادارے سٹوڈنٹس کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ذرا ذرا سی بات پر سپر فائن لگانا یہاں تک کہ فیل کر دینا اور اور ایسے کئی ہتھکنڈوں کے ذریعے سٹوڈنٹس کو مستقل دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کی ہوس کے سبب ان نجی تعلیمی اداروں میں سرکاری تعلیمی اداروں سے بھی زیادہ سٹوڈنٹس پر جبر کیا جاتا ہے۔ یہی حال ہمدرد یونیورسٹی کا بھی ہے۔ شہر کے مرکز سے 20 سے 25 کلو میٹر دور ہونے کے سبب یہاں کا گرلز ہاسٹل طالبات کے لیے اذیت گاہ بن چکا ہے۔ ایک طرف تو ہاسٹل کے اندر طالبات کی ضروریات کے لیے سہولیات سرے سے ناپید ہیں تو دوسری طرف شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے سے اردگرد سے بھی طالبات اپنی ضرورت کا سامان حاصل نہیں کرسکتیں۔ یہاں تک کہ ہاسٹل میں فراہم کیے جانے والا میس انتہائی غیرمعیاری اور مہنگا ہونے کے باوجود جو تمام طالبات پر لازمی ہے کہ وہ اسے ضرور خریدیں، یہاں تک کہ اگر وہ خوراک کھانے کے قابل نہیں بھی ہے تو اس صورت میں آپ رات کو دس بجے کے بعد باہر سے کچھ بھی نہیں منگوا سکتی ہیں۔ پڑھائی کے دباؤ کے ساتھ ساتھ آپ کو خود کھانا بنانے یا باہر سے دن کے وقت منگوانے کے خرچے کے ساتھ ساتھ آپ کو ہر صورت میں میس کی فیس ادا کرنی ہے چاہے آپ اس کا ایک نوالہ بھی نہ کھائیں۔ لاکھوں روپیہ فیسوں کی مد میں بٹورنے کے باوجود طلبہ کے لیے سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں۔
میس کے علاوہ بھی کوئی دیگر سہولت طالبات کو فراہم نہیں کی جاتیں، الٹا چھوٹی چھوٹی بات پر انہیں تنگ کیا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے اور ہر وقت انہیں پریشان رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بات بے بات والدین یا گارڈینز کو طلب کیا جاتا ہے اور ان کا وقت ضائع کیا جاتا ہے۔
صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ طالبات کی سیکورٹی کو بھی داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔ابھی حال ہی میں رات کے 3:15 بجے لڑکوں کو گرلز ہاسٹل کے اندر آنے کی اجازت دی گئی اور وہ کافی دیر گیلریز میں پھرتے رہے اور آوازیں کستے رہے۔ جو طالبات جاگ رہی تھیں انہوں نے خوف کے مارے اپنے کمروں کے دروازے بند کر لئے۔ اگلے دن جب شکایت کی گئی تو الٹا ان کو کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کچھ ہوا تو نہیں، آپ کیوں بیکار میں میں بات بڑھا رہی ہیں۔ یعنی ایک طرف تو کھلم کھلا اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی اور دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ صرف اس وقت کوئی ایکشن لیا جائے گا جب کوئی انہونی واقع ہوگی۔ اس واقعے پر آواز اٹھانے والی طالبات کو ہاسٹل انتظامیہ کی جانب سے مسلسل تنگ کیا جارہا ہے، ان کے موبائل فون چوری ہو رہے ہیں اور ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اس مدعے کو چھوڑ دیں ورنہ انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس ہمدرد یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ ہونے والی والی ناانصافیوں کی پرزور مذمت کرتا ہے اور ان کی جدوجہد میں ساتھ دینے کا اعلان کرتا ہے۔
غیر معیاری میس کے نام پر ایک طرح کے بھتے کی وصولی اور خاص کر طالبات کی سیکورٹی کو داؤ پر لگانا سراسر زیادتی ہے۔ اگر ہاسٹل انتظامیہ نے یہ سلسلہ فوراً بند نہیں کیا تو پروگریسو یوتھ الائنس کراچی سمیت ملک کے تمام شہروں میں انتظامیہ کے خلاف بھرپور احتجاج کرے گا۔
One Comment