|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، غازی یونیورسٹی|
غازی یونیورسٹی ڈی جی خان ڈویژن کی واحد بڑی سرکاری جامعہ ہے جہاں ڈویژن بھر کے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں مگر جامعہ کے طلبہ کو بے تحاشا سفری صعوبتوں کا سامنا ہے کہ ایک جانب انتظامیہ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے سے انکاری ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہر لمحہ جان لیوا حادثات کے خدشات لاحق رہتے ہیں۔
یہاں شاید جان لیوا حادثات کا ذکر مبالغہ آمیز معلوم ہوگا مگر حقیقت میں اس میں رتی برابر بھی جھوٹ نہیں چونکہ جامعہ میں داخل شدہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد کا جن علاقوں سے تعلق ہے وہ اِنڈس ہائی وے پر واقع ہیں، اور یہ ہائی وے اپنی خستہ حالی کے باعث ڈی جی خان میں بطور قاتل روڈ مشہور ہے جہاں آئے روز ایکسیڈنٹ ہونا معمول ہے حتیٰ کہ ایک ہی روز میں 32 اموات بھی وقوع پذیر ہوئیں۔
روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں طلبہ اِنڈس ہائی وے المعروف قاتل روڈ پر پبلک ٹرانسپورٹ کے دھکے کھاتے ہوئے کیمپس تک پہنچتے ہیں اور واپس گھروں کو جاتے ہیں، ایسے میں تاخیر سے کلاسز تک پہنچنا یا گاڑی نہ ملنا تو ایک طرف حادثات کے باعث طلبہ کا زخمی ہونا بھی معمول بن چکا ہے۔ ایسے غیر انسانی حالات میں طلبہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو ضلعی انتظامیہ اس روڈ کی از سرِ نو تعمیر کرے دوسرا جامعہ کی جانب سے سفری سہولیات فراہم کی جائیں تا کہ وہ اس تمام تر خجالت سے بچ سکیں۔
یونیورسٹی تواتر سے ٹرانسپورٹ چارجز لیتی ہے حتیٰ کہ کرونا وبا تک میں بھی طلبہ سے پورے ٹرانسپورٹ چارجز لئے گئے، جبکہ اس حوالے سے سہولیات فراہم نہیں کرتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ طلبہ کوئی سو میل دور تک ٹرانسپورٹ سہولیات کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ ڈی جی خان کے مضافات کے چھوٹے چھوٹے شہروں تک کی مانگ ہے۔ طلبہ کی جانب سے بارہا انتظامیہ کو خط لکھے گئے اور درخواستیں جمع کروائی گئیں مگر انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا، انتظامیہ کی جانب سے ہر دفعہ معاملے کو جھوٹ کے پلندوں تلے دبایا گیا، کبھی فنڈز کی عدم دستیابی کا راگ تو کبھی تاخیری حربے۔
مورخہ 20 دسمبر کو بھی جام پور، مانہ احمدانی، کوٹ چھٹہ کے سینکڑوں طلبہ نے دوسری بار ڈی ایس اے کو درخواست جمع کرائی ہے جبکہ چند روز قبل شادان لنڈ، کالا، شاہ صدر دین کے طلبہ بھی ٹرانسپورٹ انچارج کو درخواست جمع کرا چکے ہیں۔ مگر ان تمام درخواستوں کو ایک دفعہ پھر فنڈز کی عدم دستیابی کے نام پر دبا دیا گیا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے ٹرانسپورٹ کی دستیابی کے مطالبے کی بھر پور حمایت کرتا ہے مگر سمجھتا ہے کہ اس مطالبے کو پورا کرانے کیلئے طلبہ کی منظم عملی جدوجہد ہی واحد راہ ہے جس کے ذریعے مطالبات منظور کروائے جا سکتے ہیں، شہر شہر کے طلبہ نے درخواستیں جمع کرا کے دیکھ لیں اس سے مسئلے کا حل نہیں ہوا۔ انتظامیہ نے بار بار طلبہ کو جھوٹ پر ٹالا، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ انتظامیہ کو اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ ٹرانسپورٹ کی مد میں وصولی فیسیں اپنی عیاشیوں اور اخباری اشتہارات کیلئے استعمال کررہی ہے، ہم یونیورسٹی کے اکاؤنٹس کے آدٹ اور تمام تر کھاتے پبلک کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ اب بجائے درخواستیں دینے کے انتظامیہ کو اپنی طاقت کے ذریعے ہی ٹرانسپورٹ کی سہولیات دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ طلبہ کو ہر کلاس کے لیول پر متحد ہوکر ایک ایسی تحریک چلانا ہوگی جو جامعہ کو مکمل طور پر جام کردے، جس کے بعد انتظامیہ کے پاس طلبہ کے مطالبات تسلیم کرنے کے سوا کوئی راہ باقی نہ ہوگی۔ پروگریسو یوتھ الائنس غازی یونیورسٹی میں اس جدوجہد کا آغاز کرنے جارہا ہے جس میں تمام طلبہ کو شریک ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔