مشال خان شہید‘ طلبہ حقوق کی جنگ کا استعارہ

|تحریر: انعم خان|

ایک افریقی کہاوت ہے کہ ’’انہوں نے ہمیں دفنا دیا، انہیں خبر نہیں تھی کہ ہم بیج ہیں ‘‘

مشعل خان

آج مشال خان کی شہادت کو پورا ایک سال ہو چلا ہے۔ سال بعد بھی اُس بہیمانہ قتل کے درد ناک مناظریاد آتے ہیں تو دل دہل جاتا ہے۔ مشال خان ایک ہونہار، باشعور اور درد دل رکھنے والاانسان تھا جو کہ ذاتیات سے بلند ہو کر، یعنی اپنے کیرئیر اور زندگی کی پرواہ کئے بغیر یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن کے خلاف اور طلبہ حقوق کے دفاع کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اسے انہی ’’سنگین جرائم ‘‘ کی پاداش میں ریاستی پشت پناہی میں قتل کروا دیا گیا۔ مشال خان توہین رسالت کے جھوٹے الزام کا شکار ہونے والا کوئی پہلا انسان نہیں تھا، لیکن یہ پہلا قتل تھا جس نے بڑے واضح انداز میں لوگوں کے سامنے یہ آشکار کیا کہ ریاست اور طاقتور لوگ کس طرح اور کس حد تک اس قانون کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں کی اکثریت اور خاص کر نوجوانوں میں اس قتل کے خلاف شدید غم و غصہ اور ردعمل پیدا ہوا، جو آج ایک سال گزرنے کے بعد بھی موجود ہے۔ اسی غم و غصے کے دباؤ کی وجہ سے پہلی بار ریاستی اداروں کو خود اپنی بنائی گئی سازش کو فوری طور پر بے نقاب کرنا پڑگیا۔ ویسے تو ترقی پذیر ممالک میں ایک عام آدمی کی جیتے جی کوئی عزت نہیں ہوتی، بلکہ تھوڑی بہت مرنے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن مشال خان کی شہادت کے بعد اس کی زندگی اور جدوجہدکی جو داستان سامنے آئی، وہ اپنے اندر خاص طورپرطلبہ کے لیے بہت سے اسباق رکھتی ہے۔  

مشال خان کی شہادت نے پاکستان بھر میں طلبہ کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور طلبہ حقوق کے حصول کی جدوجہد کو نئی بنیادیں فراہم کی۔ مشال خان کی شہادت کے خلاف ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں احتجاج ہوئے۔ احتجاجوں کا یہ سلسلہ اب ایک نئی معیاری شکل کے ساتھ ایک نئے مرحلے میں داخل میں ہونے والا ہے۔ کیونکہ ا س سال بھی حکمران طبقات کی جانب سے طلبہ پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے، اس کے خلاف طلبہ کی جانب سے مزاحمت بھی زور پکڑتی جا رہی ہے۔ قرضوں، تجارتی خساروں میں دھنسی پاکستانی معیشت اوراس کے حکمران طبقات کے پاس بھی اپنے اس معاشی بحران کے بچنے کا صرف وہی طریقہ موجود ہے جو کہ ان کے مغربی آقاؤں کے پاس ہے، یعنی بڑے پیمانے پر عوامی اخراجات میں کٹوتیاں کرناجو کہ پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں بھی یہی کٹوتیاں کر کے طلبہ پر وار کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اس ادارے کے لیے مختص اکیس ارب میں سے صرف آٹھ ارب جاری کئے گئے۔ ایچ ای سی نے ظاہر ہے یہ خسارہ پھر فیسوں میں اضافہ کر کے ہی پورا کرنا تھا، جس کے خلاف خاص کر قائد اعظم یونیورسٹی میں انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اورپھر بالآخر طلبہ تحریک کے آگے سر نگو ں ہوتے ہوئے نہ صرف یہ اضا فہ واپس لینا پڑا بلکہ ان کے تمام مطالبات تسلیم کئے گئے۔

پاکستان میں تو عالمی معاشی بحران سے پہلے بھی پیداواری سیکٹر میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہاتھا، بحران کے بعد رہی سہی کسر چین کی سستی مصنوعات نے پوری کر دی۔ چین کی سستی مصنوعات کا یہاں کی زیادہ لاگت سے بننے والی مصنوعات، مقابلہ ہی نہیں کر سکتیں، جس کی وجہ سے انڈسٹریل سیکٹر اور اس سے منسلک روزگاربہت تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک لمبے عرصے سے سروسز سیکٹر ہی ہے جو منافع خوروں کی توجہ کا مرکز ہے جہاں ساری انوسٹمنٹ کی جا رہی ہے۔ سروسز میں بھی خوراک، علاج اور تعلیم سرِ فہرست ہیں جہاں بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ کیونکہ ان کا شمارانسان کی بنیادی ضروریات میں ہوتا ہے اسی لیے ان شعبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری انتہائی منافع بخش ہے۔ ایسے ماحول میں تعلیم کا کاروبار سب سے بڑا دھندا بن چکا ہے، سب نوجوانوں کو بچپن سے ہی یہ جھانسا دیا جاتا ہے کہ مہنگی ڈگری اور اچھے نمبر حاصل کرکے ’’اچھی نوکری‘‘ مل جائے گی اورپھر ’’زندگی سنور‘‘ جائے گی، اوراس کے حصول کی خاطر یونیورسٹی اور کالجز کی بڑھتی ہوئی فیسوں کے علاوہ ٹیوشن سنٹرز کی فیسیں بھرنا بھی ناگزیر کر دیا گیا ہے اور اس طرح تمام نوجوانوں کو ایک ایسی دوڑ میں لگا دیا گیا ہے جس کا اختتام ہی کوئی نہیں، جو سوائے فریب کے اور کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ ایک وقت تک گریجوایشن کرکے بھی کچھ نہ کچھ روزگار مل جایا کرتا تھا لیکن اب ایم فل اور پی ایچ ڈی کی مہنگی ڈگریاں بھی روزگار کی حصول کی ضمانت نہیں ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گریجوایٹ بیروزگاروں کی تعداد پچیس لاکھ سے زیادہ ہے جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ مہنگی ڈگریوں کے علاوہ تعلیمی اداروں کا عمومی ماحول اور دیگر ا خراجا ت، جن میں میس، ٹرانسپورٹ، مختلف تقاریب اور سیکورٹی کے نام پر اخراجات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ میں پیدا کی گئی کی ’’رٹا بازی‘‘ کی صلاحیت بھی ڈگری کے حصول کے لیے ناکافی ہے، یونیورسٹیوں میں اساتذہ کرام کی چاپلوسی کئے بغیر یعنی ان کی خدمتیں کئے بغیر بھی اچھے نمبر تو دور اپنے جائز نمبر بھی حاصل نہیں کیے جا سکتے اوراس غلاظت کا سب بڑا شکار فی میل سٹوڈنٹس بن رہی ہیں۔ اس وقت یونیورسٹیوں میں شاید ہی کوئی ایسی فی میل سٹوڈنٹس ہوں گی جنہیں پروفیسر مافیا کی جانب سے جسمانی طور پر ہراساں نہ کیا گیا ہو۔ پاکستان جیسے معاشرے میں تو ان فی میل سٹوڈنٹس کے لیے یہ تسلیم کرنا بھی اذیت ناک عمل ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کیا جارہا ہے۔ لیکن ایسے اہم ترین مسائل پر بھی اب طلبہ نے آواز بلند کرنا شروع کر دیا ہے۔ ملتان، کراچی اور حیدرآباد یونیورسٹی میں تو اس حوالے سے احتجاج بھی ہوئے ہیں۔

طلبہ کے انہی بنیادی مسائل کے خلاف ہی مشال خان بر سر پیکار تھا۔ مشال کے قتل پر بننے والی جے آئی ٹی رپورٹ نے تمام حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن پر ناصرف پردہ چاک کر رہا تھا بلکہ سٹوڈنٹس کو اس سارے معاملے سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اس سب کے خلاف منظم کر رہا تھا۔ اسی وجہ سے توہین رسالت کا ڈرامہ رچا کر اسے قتل کر دیا، جبکہ تحقیقات کے دوران بھی اس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ اس حوالے سے مرکزی ملزم وجاہت کا بیان بھی سامنے آ گیا تھا جس نے اقبالِ جرم کرتے ہوئے کہا کہ’’انتظامیہ کے کہنے پر اس نے مشال خان پر توہین رسالت کا الزام لگایا تھا۔ مردان یونیورسٹی کے چیئرمین کے کمرے میں میٹنگ ہوئی جس میں اسے کہا گیا کہ تم نے کہنا ہے کہ مشال نے توہین رسالت کی ہے۔ اس نے لوگوں سے کہا کہ میں نے مشال کو توہین کرتے سنا ہے اور فہیم عالم نے میرے بیان کی گواہی دے دی۔‘‘ جس کے بعد ’’مشتعل ہجوم‘‘ میں موجود سیاسی جماعتوں کے طلبہ ونگ کے عہدیداروں نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس مشتعل ہجوم کی’’ قیادت‘‘ جمعیت، پی ٹی آئی، اے این پی کے عہدیداران کر رہے تھے۔  

آج ایک سال گزرنے کے بعد سب پر یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ کس طرح اور کن مقاصد کی خاطر مشال خان کے قتل کی منظم سازش تیار کی گئی۔ یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی اکثریت کو یہ بخوبی علم ہوتا ہے کہ اساتذہ میں سے کون سا دھڑا انتظامیہ کا پیارا ہے آج کل، کون سا ٹھیکیدار وی سی کی قربت کی وجہ سے مال بنا رہا ہے، کون سا پیسہ کہاں سے آ کر کہاں لگایا جارہا ہے۔ مختصراً پاکستان کی سبھی یونیورسٹیاں انتظامیہ، مقامی بیورو کریسی اور سیاست دانوں کی کرپشن کی آماجگاہیں ہیں اور یہی عناصر طلبہ کے دشمن بھی ہیں۔ مشال انہیں کے خلاف صف آراء تھا۔ اس کا قصور توہین رسالت نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ وہ تمام جدوجہد اکیلے کر رہا تھا۔ اگر مشال خان کے ساتھ کوئی انقلابی نظریات پر مبنی تنظیم یا قیادت موجود ہوتی ریاست اور انتظامیہ میں یہ جرات نہیں تھی وہ اس بہیمانہ سازش کو سر انجام دے سکتی۔ انہیں لگا کہ توہین رسالت کا معاملہ بنا ئیں گے تو کوئی سوال نہیں کرے گا۔ لیکن حالات، عمومی شعوراور خاص کر طلبہ تحریک کے خوف نے ساری سازش کو پلٹا کر رکھ دیا۔

ستم ظریقی تو یہ ہے کہ ابھی بھی زیادہ تر نام نہاد بائیں بازو کے لوگ اسے توہین رسالت کا معاملہ بنا کر پیش کیے جا رہے ہیں کیونکہ توہین رسالت کے واقعات کا سامراجی آقاؤں کے حضور اچھا ریٹ لگتا ہے۔ اور اگر یہ موم بتی مافیا مشال کی جدوجہد کو کہیں تسلیم بھی کرتا ہے تو بھی ان کے لہجے خوف پر ہی مبنی ہوتے ہیں، یہ خود کو اور خاص کر نوجوانوں کو خوفزدہ کرتے ہیں کہ دیکھو اگر کوئی یہاں اپنے حقوق کی آواز بلند کرتا ہے اس کے ساتھ کیا حشر ہوتا ہے۔ عوام کے (جو کہ ان کے نزدیک اپر مڈل کلاس ہے ) جمہور ی حقوق کی دکانوں کے یہ مالکان، طلبہ اور مزدور تحریک کی راہ میں کرپٹ ٹریڈیونین اشرافیہ سے بھی بڑی رکاوٹ ہیں، کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ تحریک جب ابھرے گی تو سب پہلی لات ان کی دکانوں پر مارے گی۔ اس لیے یہ عوامی غم و غصے کا رخ موڑ کر، قانون کی بالا د ستی، آزادیِ اظہار، آزادیِ صحافت، جبری گمشدگیوں پربند کمروں سے بند کمروں تک کا ایکٹوازم کرتے رہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مشال خان کی کمزوری صرف اس کا تنہا ہونا تھا اور کچھ نہیں، دوسرا یہ کہ اس دردندہ صفت ریاست سے غضب کردہ جمہوری حقوق واپس لینے کے لیے بھی دلیری، جراتمندی کا ہونا بنیادی شرط ہے، جو ان میں کہیں نہیں ہے لیکن مشال خان میں بدرجہ اتم موجود تھی، اس کے علاوہ حالیہ عرصے میں چلنے والی پشتون تحفظ موومنٹ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ جمہوری حقوق کی لڑائی بھی عوام سے جڑ کر لڑی جاتی ہے اور عوام کے نقطہ نظر یعنی طبقاتی نقطہ پر رہ کر لڑی جاتی ہے۔ قانون کی ضرورت سے زیادہ ’بالا دستی‘ نے ہی PTM جیسی قابل قدر تحریک کو جنم دیا ہے اور ’’آزادیِ صحافت‘‘ نے PTM کے آزادیِ اظہار کے حق کا جوحال کیا اس سے سبھی واقف ہو چکے ہیں۔ قانون، صحافت، آزادی اظہار اس طبقاتی نظام میں حکمرا ن طبقات کی جیبوں میں ہوتے ہیں جنہیں یہ ترقی پذیر ممالک کے حکمران اور سامراجی آقاؤں کی دلال ریاستیں اپنے اور اپنے طبقے کے قانون، اظہار اور صحافت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ PTM نے تو ان آزادیوں کی طبقاتی حیثیت یعنی مارکس وادیوں کے ریاست متعلق طبقاتی کردار کے تجزیے کوعام عوام کے سامنے بھی سچ ثابت کردیا ہے۔  

مشال خان کے کیس کا فیصلہ بھی اسی ریاست اور اس کے حکمران طبقات کے مفادات کی نگہبانی کا واضح اظہار ہے، جس میں محض ایک مجرم کو پھانسی، پانچ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، پچیس کو چھوٹے موٹے جرمانے کر کے جبکہ چھبیس ملزمان کو ’’شواہد کی عدم موجودگی ‘‘کی بنیاد پر بری کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ان نامزد 57 ملزمان کے علاوہ مشال خان کے قتل کے بعد تقاریر کرنے والے دیگر لوگوں کو تفتیش کے دائرہ کار میں لایا ہی نہیں گیا۔ اس کے علاو ہ مو قع پر موجود، وردی اور سادہ کپڑوں والے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ کے کسی بھی فرد کے خلاف آج ایک سال گزرنے کے بعد بھی کوئی کاروائی نہیں کی گئی، کسی کو سزاملنا درکنار، ملازمت تک سے فارغ نہیں کیا گیا، جبکہ ان کے خلاف ملزمان کے بیانات بھی موجود ہیں۔ ان رہائی پانے والے قاتلوں کا جن وحشیوں نے استقبا ل کیا، ان قاتلوں نے رہائی کے فوری بعد بھی اپنی تقاریر میں اقبال جرم کیا، جس کے شواہد وڈیو کلپس کی صورت میں ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں، اس کے باوجود بھی ’قانون‘ کی کوئی بھی حرکت دیکھنے نہیں ملی۔ اس جابر ریاست اور حکمرانوں کی جیبوں میں پڑے قانون سے کوئی توقع کی بھی نہیں جا سکتی۔  

مشال خان کا قتل جن چنگاریوں کو بجھانے کی خاطر کیا گیا تھا، وہ چنگاریاں اب زور پکڑ چکی ہیں۔ ان چنگاریوں نے اپنا اظہار قائد اعظم یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج کے طلبہ کی شاندار جدوجہد میں کیا ہے۔ یہ طلبہ تحریک کی چنگاریاں کسی بھی پل سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ اور اگر اس طلبہ تحریک کے جوش و جرات کو پاکستان کے محنت کش طبقے کی طاقت بھی میسر آ گئی تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر سمیت تمام ایشیاء کے لوگوں کے مقدر بدل کر رکھ دے گا۔

دو دن پہلے ایگری کلچر یونیورسٹی فیصل آباد میں انتظامیہ کے دلال جمعیت کے غنڈوں نے پروگریسو یوتھ لائنس کے ساتھیوں کو دھمکایا کہ تمہیں مشال بنا دیں گے۔ جمعیت والوں کے لیے یہی جواب کافی ہے اب تو ہم مارکس وادیوں کے علاوہ بھی ہزاروں نوجوان مشال خان کی جدوجہد کو own کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بھی مشال ہیں۔ اتنے مشالوں کو بجھانا خود جمعیت تو دور، اِن کے آقاؤں کے بس سے بھی باہر کی بات ہے۔ مشال خان کی جرات مندجدوجہد، مارکسی نظریات کاپرچار کرنے والوں کا انقلابی خاصہ ہوتی ہے، کیونکہ نڈر ہوئے بغیر آپ مارکسی ہوہی نہیں سکتے۔ یہی جوہر مشال خان میں موجود تھا، وہ تمام تر خطرات کے باوجود بھی اکیلے ہی ظالموں کے خلاف صف آراء تھا۔ پروگریسو یوتھ الا ئنس نہ صرف مشال کی تمام جدوجہد کو own کرتا ہے بلکہ یہ جرائم ملک گیر سطح پر دہرانے کا عزم بھی کرتی ہے۔ مشال خان کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے اور ہم حتمی فتح سوشلسٹ انقلاب تک اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ اس سوشلسٹ انقلاب ہی مشال خان کے مشن اور اس کے خون کے حقیقی بدلہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.