فلم ری ویو: ریڈز (REDS)

ولیم ورڈز ورتھ انقلابِ فرانس پر اپنی نظم میں لکھتا ہے کہ ”اس صبح میں زندہ ہونا ہی ایک نعمت تھی، مگر جوان ہونا تو کیا ہی بات تھی!“ 1981ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم امریکی انقلابی راہنما جان ریڈ اور اس کی بیوی لوئیس برائنٹ کی زندگی پر بنائی گئی ہے، جنہوں نے 1917ء کے انقلابِ روس کا مشاہدہ خود روس جا کر کیا تھا اور اس سے شدید متاثر ہوئے تھے۔ جان ریڈ اپنی کتاب”دنیا کو جھنجوڑدینے والے دس دن“ کے لیے مشہور ہے اور اس کتاب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور ایک صدی گزر جانے کے باوجود آج بھی شائع ہو رہی ہے۔ یہ کتاب اس نے انقلاب روس کے تاریخ ساز دس دنوں کے متعلق لکھی تھی اور ان واقعات میں وہ خود براہ راست شریک تھا۔ اس دوران اس کی ملاقاتیں لینن اور ٹراٹسکی سے بھی ہوئی تھیں۔
فلم میں جان ریڈ اور اس کی محبوبہ کی رومانوی زندگی اور سیاست سمیت مختلف پہلوؤں کو دکھایا گیا ہے۔ کہانی کا آغاز 1915ء سے ہوتا ہے جب ان دونوں کی پہلی مرتبہ ملاقات ہوتی ہے اور اختتام 1920ء میں جان ریڈ کی موت کے ساتھ ہوتا ہے۔ جان ریڈ ایک کُل وقتی سیاسی کارکن تھا جس نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے لوگوں پر گہرے نقوش چھوڑے۔ انقلابی جدوجہد کے لیے وہ اپنے کامریڈز کے ساتھ مل کر نیویارک سے ایک پرچہ بھی باقاعدگی سے شائع کرتا ہے جبکہ مزدوروں کی تحریکوں میں بھی حصہ لیتا ہے جس کے لیے اسے پولیس کے جبر کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے۔
امریکہ میں اس وقت کی بائیں بازو کی سیاست کے اہم کردار بھی اس فلم میں نظر آتے ہیں اور ان کی نظریاتی اور عملی کام کے حوالے سے اہم بحثیں بھی فلم میں دکھائی گئی ہیں۔ ان امریکی انقلابیوں میں میکس ایسٹ مین، ایما گولڈ مین اور دیگر شامل ہیں۔ میکس ایسٹ مین نے ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق کتاب”انقلاب روس کی تاریخ“ کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ جان ریڈ امریکہ میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرتا رہااور پہلی عالمی جنگ کے خلاف مزاحمت بھی کرتا رہا۔ وہ بعد ازاں 1917ء میں انقلابِ روس کے دوران اپنی بیوی کے ساتھ روس بھی گیا، جہاں وہ دونوں وہاں کے تاریخ ساز انقلاب سے متاثر ہو کر ان واقعات کے بارے میں لکھتے رہے۔ اپنی مشہور کتاب بھی جان ریڈ نے انہی دنوں میں لکھی تھی۔
جب جان ریڈ بذریعہ ریل گاڑی روس پہنچتا ہے تو ایک سٹیشن پر انہیں 14 سالہ بالشویک سپاہی مل جاتا ہے جو کہتا ہے وہ 3 مہینوں سے عالمی جنگ میں لڑتا رہا تھا مگر اب اسے لڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ بالشویکوں کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔ وہ پُر امید ہوتا ہے کہ بالشویک جنگ کو روک دیں گے۔ فلم میں انقلاب کے بعد جان ریڈ کی باقی زندگی دکھائی گئی ہے، جب وہ امریکی سوشلسٹ پارٹی کے اندر فرقہ پرور رجحان کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنی پارٹی بناتا ہے اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ساتھ اسے منسلک کرنے کے لیے روس آتا ہے مگر واپس اپنے وطن لوٹ نہیں پاتا۔
فلم میں جان ریڈ کی زندگی کے دوران قرب و جوار میں رہنے والے مختلف محلے داروں اور قریبی افراد کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں جو 1971ء میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ یہ اصل انٹرویوزفلم کے حوالے سے ایک نیا تجربہ ہیں جو جان ریڈ کے کردار کے انتہائی ذاتی مگر دلچسپ پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ پوری فلم ایک دلچسپ تسلسل والی کہانی کی شکل میں فلمائی گئی ہے، جس میں بروقت اور مناسب طنز و مزاح بھی شامل ہے۔
جان ریڈ کا کردار فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور شریک کہانی کار وارین بیٹی (Warren Beaty) نے خود ادا کیا ہے جبکہ لوئس برائنٹ کا کردار مشہور فلمی اداکارہ ڈائین کیٹن (Diane Keaton) نے انتہائی عمدگی سے نبھایا ہے۔ مشہور اور انتہائی باصلاحیت اداکار جیک نکلسن نے بھی فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں اور مشہور امریکی سٹیج ڈراموں کے مصنف یوجین اونیل کا کردار ادا کیا ہے جو ایک وقت میں لوئس برائنٹ کے ساتھ رومانوی تعلق قائم کر لیتا ہے۔
فلم کے تمام سین اور ڈائیلاگ بار بار دیکھنے کے قابل ہیں اور کئی دفعہ دیکھنے کے بعد بھی جی نہیں بھرتا۔ خاص طور پر وہ سین جن میں انقلاب کے دوران سوویتوں کے اجلاس دکھائے جاتے ہیں اور مزدوروں کا جوش و خروش عروج پر ہوتا ہے۔ ایک سوویت کے اجلاس میں جان ریڈ کو بھی تقریر کا موقع ملتا ہے اور وہ امریکی محنت کشوں کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کرتا ہے جسے بہت پذیرائی ملتی ہے۔ اسی طرح انقلاب کے بعد لینن اور ٹراٹسکی سمیت چند دیگر بالشویک قائدین کو بھی دکھایا گیا ہے۔ انقلاب کے بعد کمیونسٹ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ہونے والی ”مشرقی عوام کی کانفرنس“ اور اس میں جان ریڈ کی تقریر کو بھی انتہائی عمدگی سے دکھایا گیا ہے اور کسی طرح بالشویک پارٹی کے لیڈر زنوویف کا بیوروکریٹک روپ نظر آتا ہے جب وہ جان ریڈ کی تقریر کے ترجمے میں تبدیلیاں کروا دیتا ہے۔ آج کے عہد میں انقلاب کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے یہ فلم نصاب کا اہم حصہ ہونی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.