فلم ری ویو: پیاسا

یہ 1957ء میں ریلیز ہونے والی ایک انڈین فلم ہے جو بلیک ایند وائٹ میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر مشہور فلمساز گرو دت ہیں اور یہ ان کی سب سے بڑی شاہکار ہے۔ اس فلم کے گانے مشہور انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے لکھے ہیں۔ جبکہ مرکزی کرداروں میں گرو دت، مالا سنہا، وحیدہ رحمان، جانی واکر اور رحمان شامل ہیں۔ یہ اپنے دور کی بہت مشہور فلم ہے جسے عالمی سطح پر بھی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی مشہور موسیقار ایس ڈی برمن کی بنائی ہوئی ہے جبکہ گلوکار محمد رفیع اور گیتا دت ہیں۔ اس فلم کے گانے آج بھی سننے میں لطف دیتے ہیں۔

فلم کا مرکزی کردار ایک شاعر ہے جو انتہائی غربت اور بیروزگاری میں زندگی گزار رہا ہے اور اسے زمانے بھر کی دھتکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی اس کی شاعری اور اس کے فن کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھتا اور گھر والے بھی اسے گھر سے نکال دیتے ہیں۔ غربت سے تنگ آ کر وہ اپنا کلام کسی امیر شخص کو فروخت کر دیتا ہے جو اسے انتہائی شاندار انداز میں شائع کروا کر مقبولیت اور رتبے کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ اس دوران اس کی جوانی کی محبت بھی اس سے دور ہو جاتی ہے اور وہ دوسروں کے گھروں میں معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

اس دوران مختلف واقعات اسے اس کی کم مائیگی اور زمانے کی سفاک اور بے رحم حقیقت کا مسلسل ادراک کرواتی رہتی ہیں اور اس کے دل میں اس سماج سے نفرت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ آخر میں جب زمانے کو اس کی عظمت اور اہمیت کا ادراک ہوتا ہے تو وہ خود اس کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس غلیظ اور گھٹیا دنیا میں اگر کوئی اعلیٰ مقام مل بھی جائے تو اسے ٹھوکر مار دینے میں ہی عافیت ہے ورنہ انسان اسی غلاظت اور ذلت میں خود غرق ہو جاتا ہے۔ اس تمام کہانی میں ساحر کی شاعری نے چار چاند لگا دیے ہیں اور اس کردار کے حقیقی جذبات کی گانوں کے ذریعے بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔

آج بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے اور اعلیٰ شاعری کرنے والے گلوکار یا اداکار گمنامی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بیہودہ شاعری اور گلوکاری کرنے والے نہ صرف کروڑوں روپے کما رہے ہیں بلکہ سماجی رتبے اور مقبولیت میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اس حوالے سے اس فلم کا پیغام اور اس میں دکھائے گئے کرداروں کی کہانی آج کے حالات سے بھی مطابقت رکھتی ہے اور درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی عکاسی کرتی ہے جو اعلیٰ فن کی قدر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ اعلیٰ اور سچے فن کو اجاگر کرنے کے لیے اس نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.