یہ 2003ء میں ریلیز ہونے والی انڈین فلم ہے جس میں مشہور اداکار عرفان خان نے سٹوڈنٹ لیڈر کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اور رائٹر تگمانشو دھلیا ہیں جو مختلف فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی چکے ہیں۔ یہ فلم گزشتہ تین دہائیوں میں اس خطے میں موجود طلبہ سیاست کی بھرپور عکاسی کرتی ہے اور مختلف طلبہ تنظیموں اور ان کی قیادتوں کے کردار کی عمدہ انداز میں وضاحت کرتی ہے۔ اس فلم میں مشہور اداکار جمی شیرگل اور آشوتوش رانا نے بھی اہم کردار نبھائے ہیں۔ لیکن عرفان خان کی اداکاری نے پوری فلم کو انتہائی بلند پیمانہ عطا کر دیا ہے۔
فلم کی کہانی ایک تعلیمی ادارے کے سٹوڈنٹ لیڈروں کے گرد گھومتی ہے جو سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن جیتنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس دوران شہر میں موجود بڑے سیاستدانوں کی اس تعلیمی ادارے میں مداخلت کو بھی واضح طور پر دکھایا گیا ہے۔ جبکہ عام طلبہ کے ان لیڈروں کی جانب رویے اور اس میں سے ایک عام طالب علم کے ان کے چنگل میں پھنسنے کے عمل کو بھی دکھایا گیا ہے۔ فلم کی خوبصورتی اس کے کرداروں میں موجود حقیقت نگاری اور ان میں موجود اندرونی تضاد بھی ہے جو اس تضاد کو حل کرنے کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔
اس فلم میں بھی ہیرو ازم اور کرداروں کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ حقیقت سے کہیں دور لے جانے کا عمل نظر نہیں آتا اور دیکھنے والا ان کرداروں کو روز مرہ زندگی کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ اسی طرح کہانی تمام تر تضادات کے ساتھ انتہائی متوازن انداز میں آگے بڑھتی ہوئی کلائمیکس کی جانب بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔
کلائمیکس کے سین انتہائی مہارت کے ساتھ اوریجنل لوکیشن پر فلمبند کیے گئے ہیں اور کنبھ کے میلے کی بھیڑ میں شوٹنگ کرنا اور کرداروں کو دیانت داری کے ساتھ نبھانا انتہائی مشکل کام تھا جو اس فلم میں نظر آتا ہے۔ فلم دیکھنے والوں کو طلبہ سیاست اور اس میں روایتی سیاست کی مداخلت واضح طور پر نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ طلبہ سیاست میں نظریات نہ ہونے سے ذاتی وابستگیاں اور خاندانی پس منظر حاوی ہو جاتا ہے جو پھر فروعی دشمنیوں اور رقابتوں کو جنم دیتا ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ سیاست کو نظریات کے ساتھ جوڑا جائے اور اسے سماج کی تبدیلی کی جدوجہد کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس کے بعد ہی طلبہ کو انقلابی سیاست اور نظریات سے روشناس کروایا جا سکتا ہے اور ذاتی رنجشوں اور گھٹیا سیاست سے پاک کیا جا سکتا ہے۔