موجودہ نظام کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے مثالی شخصیت رکھنے والے عظیم انقلابی اور دنیا بھر میں مقبول چے گویرا پر بنائی گئی یہ فلم 2008ء میں ریلیز کی گئی۔ یہ ہسپانوی زبان میں بنائی گئی اور اس کو دو حصّوں میں ریلیز کیا گیا؛ پہلا حصّہ ’دی ارجنٹائن‘ چے کی کتاب ’کیوبن انقلابی جنگ کی یادگاریں‘ پر مبنی ہے، اور دوسرا حصّہ ’گوریلا‘ بھی اسی کی دوسری کتاب ’دی بولیوین ڈائری‘ پر۔ اس میں چے گویرا کا مرکزی کردار پیورٹو ریکن ا داکاربینیسیو دیل تورو نے بہت ہی شاندار انداز میں نبھایا ہے، جس کی شکل قدرتی طور پر پہلے ہی چے کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور تھوڑے بہت میک اپ کے بعد تو بندہ ان کے بیچ فرق ہی نہیں کر پاتا۔ اس کے ساتھ بینیسیو نے چے کی چال چلن اور اندازِ بیان کی بھی ماہرانہ نقالی کی ہے، جس کے بدلے اسے کینز فلم فیسٹیول میں بیسٹ ایکٹر کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیدل کاسترو، راؤل کاسترو اور دیگر انقلابیوں کے کردار نبھانے والے اداکاروں اور اداکاراؤں نے بھی بہت حقیقی اداکاری کی ہے۔
فلم کے پہلے حصّے میں 1958ء کے کامیاب کیوبن انقلاب کو دکھایا گیا ہے، جس میں مسلح جدوجہد کے ذریعے بتیستا کی آمرانہ حکومت گرا کر ایک انقلابی حکومت قائم کی گئی تھی۔ اس میں مختلف واقعات کو ایک سیدھی لائن میں نہیں بلکہ بغیر ترتیب کے دکھایا گیا ہے۔ کبھی آپ کو چے گویرا انٹرویو دیتا نظر آئے گا تو کبھی اقوامِ متحدہ کے اندر تقریر کرتا ہوا، جس کے ساتھ ساتھ مسلح لڑائی کے سلسلے کے مناظر بھی جاری رہتے ہیں۔ چے کے لیے جنگ صرف ہتھیار اٹھا کر فائرنگ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ میلوں تک زخمی ساتھیوں کو اٹھا کر چلتا رہتا ہے اور ان کی طبی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اس کے سر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے یونٹ اگر کہیں دیہاتی علاقوں کے قریب پڑاؤ ڈالتے ہیں تو چے وہاں فری میڈیکل کیمپ بھی لگا لیتا ہے اور غریب کسانوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ فیدل کاسترو کی قیادت میں کئی سالوں پر مشتمل جدوجہد کے بعد بالآخر گوریلا فوج مقامی محنت کش طبقے کی عام پڑتال اور پر زور حمایت کے ذریعے کامیاب ہو جاتی ہے۔ فلم کے آخری مناظر میں جب ایک سپاہی چے سے گھر واپس لوٹنے کی اجازت مانگتا ہے تو وہ اسے منع کر کے کہتا ہے کہ ”جنگ ختم ہوگئی، انقلاب اب شروع ہوا ہے۔“
فلم کے دوسرے حصے میں چے کی زندگی کے آخری معرکوں کو دکھایا گیا ہے، جو اس نے بولیویا کے ملک میں سر انجام دیے۔ کیوبا کے انقلاب کی کامیابی کے بعد چے دیگر ممالک تک بھی انقلاب کو پھیلانا چاہتا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ بھیس بدل کر اور فرناندو اور رامون کا نام اپنا کر بولیویا جاتا ہے اور وہاں گوریلا فوج کو منظم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بد قسمتی سے اس وقت ملک کے اندر کیوبا کی طرح انقلابی صورتحال موجود نہیں ہوتی اور وہ کسانوں کو متحرک نہیں کر پاتا اور نہ ہی وہاں کی مزدور تحریک کے ساتھ کوئی جڑت بنا پاتا ہے جو کسی بھی انقلاب کی کامیابی میں فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہے۔ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی بھی اس کا ساتھ نہیں دیتی، جو مسلح جدوجہد کو غلط سمجھتی ہے۔ بولیویا کی حکومت کے ساتھ ساتھ سی آئی اے کے ایجنٹ بھی ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور آخرکار پے در پے شکستوں کے بعد ایک گاؤں میں چے کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، جس کے بعد اسے دیگر گرفتار ساتھیوں سمیت گولی مار کر سزائے موت دی جاتی ہے۔
فلم میں جنگلات، دیہات اور جنگی مناظر کی بہت خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے جو فلم دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب سے ہٹنے نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ اگرچہ نظریاتی اور تنقیدی نقطہ نظر کو نہیں اپنایا گیا ہے اور محض واقعات تک ہی محدود رہنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس کو دیکھنے کے بعد ان ناظرین کا مزید جاننے کا دل ضرور کرے گا جو اس سماج کو بدلنا چاہتے ہیں۔