|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
پروگریسو یوتھ الائنس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی جانب سے اعلان کردہ فیسوں میں 10 فیصد اضافہ فی الفور واپس لیا جائے۔ اگر فیسوں میں اضافہ واپس نہ لیا گیاتو احتجاج کی کال دیں گے۔ تعلیم کا یہ کاروبار کسی صورت قبول نہیں۔ فیسوں میں اضافے کے اس اعلان نے پنجاب حکومت کے تعلیمی بجٹ میں اضافے کا پول کھول دیا ہے۔ ایک طرف پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کی نعرے بازی کی جارہی ہے تو دوسری طرف یونیورسٹی فیسوں میں اضافہ کرکے غریب طلبہ سے تعلیم کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس طلبہ دشمن اقدام کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ فیسوں میں اضافہ واپس لیتے ہوئے تعلیم مفت کی جائے۔ ان حملوں کے مقابلہ کرنے کے لئے طلبہ یونین کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔
جنوبی پنجاب میں دو ہی بڑی سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جن میں ایک بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور دوسری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہے۔ پورے جنوبی پنجاب سے طلبہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد غریب طلبہ کی ہوتی ہے جو پرائیویٹ اداروں کی بھاری بھرکم فیسیں ادا نہ کر پانے کی وجہ سے سرکاری اداروں کا رخ کرتے ہیں۔سرکاری ادارے ہونے کی وجہ سے ہر طالب علم اور اس کے والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان اداروں میں داخلہ مل جائے تاکہ سستی تعلیم مل سکے۔مگر آئے روز سرکاری اداروں میں فیسیں بڑھائیں جا رہی ہیں ۔
فیسوں میں اضافے کا اعلان ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب یونیورسٹی موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند ہے اور اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے فیسوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا گیا ہے جو طلبہ کیساتھ کھلی زیادتی ہے۔
چھٹیوں کے دوران یہ اعلان کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے احتجاجوں اور اکٹھ سے کس قدر خوف زدہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کی ہمیشہ کی طرح یہ کوشش ہے کہ اس بات کو دبا دیا جائے اور جب طلبہ چھٹیوں سے واپس آئیں تو ان پر امتحانات اور کاموں کا خوف اور بوجھ ڈال کر انہیں چپ کرا دیا جائے۔
مگر یقیناً طلبہ اس معاملے پر خاموش بالکل نہیں رہیں گے اور وہ فیسوں میں اس اضافے کے خلاف احتجاج کا رستہ اپنائیں گے۔ اس لڑائی میں انکا سامنا صرف یونیورسٹی انتظامیہ سے ہی نہیں بلکہ ریاستی انتظامیہ کی دلال نام نہاد طلبہ تنظیموں سے بھی ہوگا جو طلبہ کو ڈرانے کی کوشش کریں گے کہ احتجاج کا طریقہ درست نہیں ہے اس سے ہمیں یونیورسٹی سے نکالا جا سکتا ہے اور ہمیں وائس چانسلر صاحب سے درخواست کرنی چاہیئے وغیرہ اور پھر وہ طلبہ کے لیڈر بننے کی کوشش کریں گے کہ ہم انتظامیہ سے بات کریں گے وغیرہ۔ اگر انکی یہ چال نہ چلی اور طلبہ احتجاج کرنے نکل آئے تو پھر یہ لوگ احتجاج میں لیڈر بننے کا ناٹک کریں گے انتظامیہ سے مک مکا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔طلبہ کو ان دلالوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
جہاں تک یونیورسٹی انتظامیہ کی بات ہے تو وہ ویسے ہی طلبہ کا اکٹھ دیکھ کر ہوش کھو بیٹھتی ہے۔ انتظامیہ سے اپنے مطالبات منوانے کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ یہ کہ پوری یونیورسٹی کے طلبہ اکٹھے ہو کر احتجاج کریں ۔انتظامیہ جتنا طلبہ کے اکٹھ سے ڈرتی ہے اتنا اور کسی بات سے نہیں ڈرتی۔ منظم ہو کر فیسوں میں اضافے کا خاتمہ کرایا جاسکتا ہے۔