|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گجرانوالہ|
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جسے ’’انٹرنیشنل‘‘ یونیورسٹی ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے اور جہاں سے ہر سال ہزاروں طلبہ ’’ڈگری یافتہ‘‘ ہو کر نکلتے ہیں۔ اسی یونیورسٹی سے بی ایڈ کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالب علم نے بی ایڈ کے طلبہ کے ساتھ یونیورسٹی کی جانب سے روا غنڈہ گردی کے بارے میں بتایا کہ کس طرح ان یونیورسٹی والوں نے ڈگریاں بیچنے کا دھندا کھول رکھا ہے اور محض ایک نام نہاد ڈگری کی مد میں ایک ایک طالب علم سے ہزاروں روپے بٹور کر ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ طالب علم نے بتایا کہ بی ایڈکے کل پانچ سمیسٹر ہیں اور ایک سمیسٹر کی فیس بارہ ہزار روپے ہے اب چونکہ طلبہ کا چوتھا سمیسٹر ختم ہونے کو ہے اور یونیورسٹی والوں نے اپنا بھونڈا سا ’’قانون‘‘ بنا رکھا ہے کہ طلبہ پچھلے سمیسٹر کے مکمل طور پر ختم ہونے سے پہلے پہلے اگلے سمیسٹر کی فیس جمع کروائیں اس لیے اب پانچویں سمیسٹر کی بھی بارہ ہزار روپے فیس جمع کروائی جانی تھی لیکن اس فیس کے جمع کروانے سے پہلے ہی تمام طلبہ کو یونیورسٹی کی جانب سے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پانچویں سمیسٹر کی فیس بارہ ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار روپے کر دی گئی ہے جو کہ یونیوسٹی انتظامیہ کی طلبہ کے ساتھ کھلم کھلا زیادتی اور ظلم و جبر کو واضح کرتا ہے۔
بی ایڈ کی اس طالب علم نے کہا کہ وہ اور اس کے طلبہ ساتھی پہلے ہی بامشکل بارہ بارہ ہزار جمع کر کے اپنی فیس کی ادائیگیاں کر رہے تھے لیکن اب ایک دم سے فیس بڑھا کر ان پر مزید پریشانی کا پہاڑ توڑا گیا ہے۔ وہ اس فیس کی ادائیگی نہیں کرنا چاہتیں لیکن اب جبراََ انہیں یہ فیس بھی ادا کرنی پڑے گی کیونکہ اگر یہ فیس ادا نہ کی گئی تو پچھلے لگائے گئے ہزاروں روپے بھی بے کار جائیں گے۔ یہ تمام طلبہ کے ساتھ بے تحاشا لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ طلبہ کو گھروں میں بٹھا کر نام نہاد تعلیم دینے کے ان سے چار گناہ زیادہ پیسے اینٹھنا یونیورسٹی والوں کی کہاں کی اچھائی ہے یہ کہاں کا انصاف ہے۔ حکومت کا کوئی ادارہ یونیورسٹی انتظامیہ کو پوچھنے والا نہیں کہ وہ کس سے پوچھ کر فیسوں میں بے دھڑک اضافہ کر رہی ہے اور اگر طلبہ پر کوئی احسان کیا گیا ہے وہ یہ کہ فیس جمع کروانے کی تاریخ بڑھا دی گئی ہے تا کہ طلبہ تسلی سے یونیورسٹی والوں کی جیبیں بھر سکیں۔ بی ایڈ کی جو ڈگری طلبہ کو 60,000 میں ملنی تھی اب وہی ڈگری انہیں 68,000 میں خریدنی پڑے گی اور اس سب کے بعد بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ انہیں کہیں روزگار نامی کوئی چیز ملے گی بھی یا نہیں۔
اس کے علاوہ اوپن یونیورسٹی کا معیارِ تعلیم یہ ہے کہ طلبہ کو ورکشاپ کے دوران پانچ پانچ گھنٹے ایسے جاہل اور ناکارہ اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑ ا جاتا ہے جنہیں خود کچھ آتا جاتا نہیں اور اگر کوئی طالبِ علم ایسے ’ہو نہار‘ اساتذہ سے سوال پوچھنے کی جرأت کر بھی لے تو استاد جی جواب میں اپنی رام کتھا سنا کر پانچ سو کی دیہاڑی لگا کر چلتے بنتے ہیں۔طلبہ کو ورکشاپ کے دوران جبر اََ ان بکواس کرنے والے اساتذہ کو جھیلنا پڑتا ہے تاکہ انہیں ورکشاپ میں حاضری کے نمبر مل سکیں۔ کچھ طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمیسٹر ختم ہونے کے آخری دن آ کر اپنی حاضری پوری کر جاتے ہیں اور کوئی انہیں نہیں پوچھتا کیونکہ وہ اپنی تگڑی سفارش کرواتے ہیں یا پھر انتظامیہ کے منہ میں رشوت کے پیسے ٹھونسے جاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کر سکتے انہیں ساری اذیت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اسائمنٹ کی بات کی جائے تو وہ بھی کسی کو پیسے دے کر بنوانی پڑتی ہے کیونکہ اوپن یونیورسٹی کی طر ف سے بی ایڈ کی ساری کتابیں سوائے اسلامیات کے انگریزی میں ہیں اور بہت مہنگی بھی ہوتی ہیں لہٰذا جو طلبہ انگریزی لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتے اور جو نوکری کرتے ہوں انہیں بھی وقت کی قلت کے باعث دوسروں کو پیسے دے کر اسائمنٹ بنوانی پڑتی ہے۔ اساتذہ کا تو پہلے ہی اللہ حافظ ہوتا ہے وہ طلبہ کو کیا سکھائیں گے؟ پھر طلبہ اپنے پیسوں سے کرایہ لگا کر بھی جاتے ہیں اور کچھ طلبہ تو دور دراز علاقوں سے ورکشاپ لینے آتے ہیں اور یہاں انہیں جسمانی اور ذہنی کوفت کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ اتنا پیسا خرچ کرنے کے بعد بی ایڈ کی یہ ڈگری لاکھ روپے تک جا پہنچتی ہے جس کا بعد میں طلبہ کو شاید ہی کوئی فائدہ حاصل ہو سکے۔
پروگریسو یوتھ الائنس علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی اس غنڈہ گردی اور ادارے میں بدنظمی کی شدید مذمت کرتا ہے اور طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا اچانک فیسوں میں اضافہ کرنا طلبہ کو سراسر بلیک میل کرنے کے مترادف ہے اور یہ طلبہ کے ساتھ ظلم اور استحصال کیا جا رہا ہے جس کے خلاف اوپن یونیورسٹی کے تمام طلبہ کو اپنے حق کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔طلبہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کر کے ہی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ہر طلبہ دشمن اقدامات کو مات دے سکتے ہیں تاکہ کوئی بھی تعلیمی ادارہ طلبہ یونین کے ڈر سے فیسوں میں اضافہ کرنے سے پہلے دس بار سوچے۔