|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ملتان|
2013 سے پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں کی طرح بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بھی پسماندہ صوبے بلوچستان اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلباء کو مفت تعلیم فراہم کی جا رہی تھی جو کہ ان پسماندہ علاقوں کے طلبہ کے حوالے سے ایک اچھا منصوبہ تھا۔ بلوچستان کے لئے ہر ڈپارٹمنٹ میں دو، دو مخصوص نشستوں کے علاوہ فرسٹ ٹائم کلاسز میں اوپن میرٹ پر بھی فیس نہیں لی جاتی تھی۔ جبکہ ایم فل کی فیسیں معاف نہیں تھیں اور فاٹا و خیبرپختونخوا کے لئے ہر ڈپارٹمنٹ میں 4 مخصوص نشستوں پر تعلیم مفت تھی اس کے علاوہ اوپن میرٹ اور ایم فل کی فیسیں لی جاتی تھیں۔ ان تمام طلبہ جن کو فرسٹ ٹائم کلاسز میں اوپن میرٹ پر داخلہ ملتا یا مخصوص نشستوں پر داخلہ ملتا ان سے ہاسٹل فیس بھی نہیں لی جاتی تھی، مگر اس سال جب داخلے شروع ہوئے تو اوپن میرٹ پر ماسٹر کے لئے بلوچستان سے بہت سے طلبہ نے اپلائی کیا مگر جب لسٹ میں ان کے نام آئے تو ان سے فیس طلب کی گئی۔
طلبہ نے انتظامیہ کے سامنے تمام لیٹرز پیش کئے جس کے بناء پر انکی فیسیں معاف تھیں مگر انتظامیہ نے انکار کیا۔ اس کے بعد تمام ڈپارٹمنٹس میں اوپن میرٹ پر داخلہ لینے والے طلباء سے ڈپارٹمنٹ اور ہاسٹل فیس طلب کی جا رہی ہے۔ پچھلے سال جو طلبہ ڈراپ ہوئے ان سے بھی ری ایڈمیشن کرنے پر فیسیں طلب کی جا رہی ہیں اور ہاسٹل میں اوپن میرٹ پر اور مخصوص نشستوں پر آئے بلوچستان و فاٹا کے طلبہ کو ہاسٹل فارم تک فراہم نہیں کیے جا رہے۔ طلباء باہر گراسی پلاٹوں میں سونے پر مجبور ہیں، کیونکہ ہاسٹل انتظامیہ ان کو اندر آنے کی اجازت نہیں دیتی۔
ان تمام مسائل کی وجہ سے طلبہ نے یونیورسٹی میں احتجاج کیا۔ احتجاج شام 6 بجے شروع ہوا اور تقریبا 2 گھنٹے جاری رہا۔ احتجاج میں طلبہ نے مفت تعلیم کیلئے خوب نعرے بازی کی۔
طلبہ کے مسلسل دباو اور اگلے دن صدر پاکستان کے یونیورسٹی میں دورے کے خوف سے انتظامیہ نے بالآخر طلباء کے 4 میں سے تین مطالبات تسلیم کر لیے۔ جبکہ ایک کو نا قابل قبول کرار دیتے ہوئے نہیں مانا۔
درج ذیل مطالبات منظور ہو گئے:
1- ری ایڈمیشن پر (چاہے وہ مخصوص کوٹے یا اوپن میرٹ پر ہو) بلوچستان و فاٹا کے طلباء سے فیس وصولی کا ناجائز عمل فوری طور پر بند کیا جائے اور گزشتہ سالوں کی پالیسی کے تحت بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کو اوپن میرٹ پر مفت تعلیم کا موقع دیا جائے۔
2- بلوچستان و فاٹا کے طلباء کو الاٹمنٹ فارم جلد از جلد مہیا کیے جائیں۔
3- بعض ہاسٹلوں میں ری الاٹمنٹ کی مد میں کثیر رقم طلب کی جارہی ہے جو کہ پہلے کبھی نہیں کی گئی۔ اس سلسلے کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
درج ذیل مطالبہ منظور نہیں ہوا:
1- اوپن میرٹ پر بلوچستان اور فاٹا کے طلباء سے فیس وصولی کا عمل بند کیا جائے اور گزشتہ سالوں کی پالیسی کے تحت بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کو اوپن میرٹ پر مفت تعلیم کا موقع دیا جائے۔
ویسے تو تمام تر مطالبات ہی اہم تھے مگر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل مطالبہ وہ تھا جو انتظامیہ کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر صبر اور جرات کے ساتھ احتجاج جاری رکھا جاتا تو یقینا یہ مطالبہ بھی پورا ہو جاتا۔ ویسے طلباء کا یہ کہنا تھا کہ اگر انکے ان مطالبات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو وہ پھر احتجاج کا رستہ اختیار کریں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ طلباء کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ان کے تمام تر جائز مطالبات بھی صرف اور صرف منظم جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ کبھی بھی انتظامیہ سے بھیک مانگ کر کچھ بھی نہیں ملے گا، اور بھیک بھلا مانگیں بھی تو کیوں؟ کیا ہم انکے غلام ہیں یا یہ لوگ ہمارے ماں باپ کی جگہ ہمارے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہے ہیں؟ یا ہم نے کوئی جرم کیا ہے؟ اس احتجاج سے ہی طلباء کو اس بات کا اندازہ لگا لینا چاہیئے کہ وہ ایک بہت بڑی طاقت ہیں۔ اگر اپنے آپ پر بھروسہ کریں تو سب کچھ منوایا جا سکتا ہے۔
آج پورے ملک کے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ ذرا سوچیں کہ اگر پورے ملک کی ہر یونیورسٹی کے طلبہ کا آپس میں رابطہ ہو اور ایک کے مسئلے پر سب اسکے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو دنیا کی کونسی طاقت انہیں انصاف لینے سے روک سکتی ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ اتحاد زندہ باد!