|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|
سابقہ فاٹا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے 29 مارچ 2021 ء سے اسلام آباد میں واقع پاکستان میڈیکل کمیشن کے سامنے دھرنا دیا ہوا ہے۔ حکومت نے ”پرویژن آف ہائیر ایجوکیشن فار دی سٹوڈنٹس آف ایکس فاٹا اینڈ بلوچستان“ پروگرام کے تحت فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے لیے ہر پبلک میڈیکل کالج میں جو 4 سیٹیں مختص کی تھیں، جن کی تعداد مجموعی طور پر 265 سے زائد بنتی ہے، ان کی تعدادکم کر کے 29کر دی ہے۔ ان طلبہ کا مطالبہ ہے کہ انہیں وا پس پرانی تعداد پر بحال کر کے طلبہ کو سکالرشپس مہیا کی جائیں۔ 2019ء میں ”سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی فار لیس ڈیولپڈ ایریا“ نے اس پروگرام پر قرارداد منظور کر کے اسے قانونی شکل دے دی تھی اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اسے 2022 ء تک لاگو کر کے ایچ ای سی کے ذریعے فنڈ فراہم کیا جائے گا۔ ایچ ای سی اس کا امتحان لے کر پاکستان میڈیکل کمیشن کی جاری کردہ میرٹ لسٹ کی بنیاد پر طلبہ کو مختلف میڈیکل کالجز میں سیٹیں فراہم کرتا ہے۔
مذکورہ قرارداد منظور ہونے کے بعد2019-20 ء کے دورانیے میں بھی طلبہ کو بے تحاشا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کی مستقل جدوجہد کے نتیجے میں انہیں بالآ خر داخلے دیے گئے۔ اس سال بھی ایچ ای سی نے اس کا امتحان لیا تھا اور طلبہ کو اس کے ای میلز بھی موصول ہو گئے تھے مگر بعد میں ان کو پتہ چلا کہ ان سیٹوں کی تعداد کم کر کے 29 کر دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں داخلے کا انتظار کرتے 230 سے زائد طلبہ داخلہ نہیں لے پائیں گے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ منظور شدہ قرارداد کی خلاف ورزی ہے اور اس تعداد کو دوبارہ پرانی سطح پر بحال کیا جائے تاکہ ان کا قیمتی سال ضائع ہونے سے بچ جائے۔
ان طلبہ نے پی ایم سی کے باہر سڑک کنارے کئی دنوں سے دھرنا دیا ہوا ہے اور شدید مشکلات سے دوچار ہے مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، جو انہیں مختلف حیلے بہانوں سے ٹال رہی ہے۔ ان طلبہ میں سے کچھ نے 8 اپریل سے بھوک ہڑتال کا بھی آغاز کیا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ ان کو اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ پچھلے دن جب بارش ہوئی تو ہمارا سارا سامان گیلا ہو گیا اور ہمیں رات جاگ کر گزارنا پڑی۔ اس کے علاوہ انہیں خوراک کا انتظام بھی اپنے پیسوں سے خود کرنا پڑتا ہے جو ایک الگ مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں کوئی بھی نقصان ہوا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ ان سارے مسائل کے باوجود یہ سارے طلبہ پر عزم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو وہ رمضان میں بھی اپنے دھرنے کو جاری رکھیں گے اور حتیٰ کہ عید کے دنوں میں بھی یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔
پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے ان طلبہ کے کیمپ میں اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے شرکت کی اور حکومت کے اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ طلبہ نے ہمارے نمائندگان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک جانب تو ان کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ادارے تعمیر نہیں کرتی اور پھر جب وہ شہروں میں آ کر پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ پی وائی اے ان کے ساتھ غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو قومیاتے ہوئے ان میں طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اورمعیاری تعلیم کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امیروں اور سرمایہ داروں کی نمائندہ یہ ریاست ہمارے مطالبات کو اتنی آسانی سے نہیں مانے گی، اس کے لیے سارے طلبہ اور نوجوانوں چاہے ان کا تعلق ملک کے پسماندہ دیہات سے ہو یا شہروں سے، کوایک ساتھ مل کر انہیں للکارنا ہوگا اور اپنے جائز مطالبات کے لیے نا مصالحت جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔ صرف اسی صورت طلبہ کو درپیش ان بے تحاشا مسائل کا مستقل خاتمہ ممکن ہے۔