اے پی ایس کے بچوں کا قاتل یا قومی ہیرو؟

 

|تحریر: اختر منیر|

عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشعل خان کے ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل کے خلاف ملک بھر میں شدید غم و غصہ دیکھنے آیا۔ پورے ملک میں لوگ بالخصوص طلبہ اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جس کی پشت پر یونیورسٹی انتظامیہ اور پاکستانی ریاست کے ’معصوم‘ ادارے پولیس اور فوج موجود تھے۔ مگر یہ حکمران اس قسم کے عوامی ردعمل کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس عوامی ردعمل کے زیراثر خود کو معصوم ثابت کرنے اور لوگوں کی توجہ بٹانے کے لئے اپنے ہی پیداکردہ ایک گماشتے ’پاکستانی‘ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی گرفتاری ڈالی گئی۔ اور اب یہ قاتل ریاست اپنے اس گماشتے سے بھارت اور افغانستان کے خلاف بیان دلوا کر ایک طرف خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب سینکڑوں معصوم لوگوں کے قاتل کو ہیرو بنانے کی بھونڈی کوشش کررہی ہے۔ یہ اے پی ایس کے معصوم بچوں کے لہو سے کھلی غداری ہے اور پشاور حملے کے بعد شروع ہونے والے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد آپریشنوں کی حقیقت کو بھی عیاں کرتا ہے ۔

16دسمبر 2014ء کا دن ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جب خونخوار درندوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس انسانیت سوز واقعے میں 132بچے شہید ہوئے اور متعدد زخمی بھی ہوئے۔ یوں تو آئے روز پاکستان میں لاتعداد افراد دہشت گردی کے اس خونخوار عفریت کی بھینٹ چڑھتے ہیں مگر اس بار اس کا شکار معصوم بچے تھے۔ اس واقعے سے عوام، بالخصوص طلبہ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ نام نہاد سیکیورٹی ادارے بے نقاب ہوگئے اور ریاست پر بھی سوال اٹھنے لگے جس نے ڈالروں کی لالچ میں اپنے سامراجی آقاؤں کے ایما پر مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے گھناؤنے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پورے ملک کے تعلیمی اداروں کے طلبہ سراپا احتجاج تھے اور ہر شہر میں طلبہ اور نوجوانوں کے چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ یہ حالات دیکھتے ہوئے مٹھی بھر حکمران ٹولے کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اور کسی بڑی تحریک کے خوف سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا جس کے بعد ’سیکیورٹی‘ کے نام پر تمام تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں فوج اور پولیس کوتعینات کردیا گیا جس کا اصل مقصد ممکنہ طلبہ تحریک کو کچلنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی غم وغصے پر قابو پانے کے لئے ’’کامیاب‘‘ فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور جن کی کامیابیوں سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔

دہشت گردی سرمائے کا ایک ایسا گھناؤنا اور منافع بخش کاروبار ہے جس کی انویسٹمنٹ غریب محنت کش عوام کا لہو ہے اور اس کا منافع سرمائے کے ان پجاریوں کی جیبوں میں جاتا ہے جو صدیوں سے انسانیت کا استحصال کرتے آئے ہیں۔

سرمائے کہ ہزار بتوں پر سے وارے جائیں
لوگوں کا کام ہے کہ دھماکوں میں مارے جائیں

عوام کی یادداشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ وہ یہ فوراً بھول جائیں کہ یہ وہی دہشت گرد ہیں جنہیں ’’گڈ طالبان‘‘ کے خطاب سے نوازا جاتا رہا ہے اور یہ اس ریاست کے سٹریٹجک اثاثے ہیں جس کو اپنے مفاد کے حصول کے لئے آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کی پشت پناہی بھی جاری و ساری ہے۔ کبھی دہشت گردوں سے مذاکرات اور کبھی فوجی آپریشنوں کے نام پرعوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسی ریاست نے اپنے سامراجی آقاؤں کی گماشتگی اور اپنی جیبیں ڈالروں اور ریالوں سے بھرنے کے لئے ان درندوں کو پروان چڑھایا اورمذہبی تعصبات کو فروغ دیا۔ ان وحشیوں کو ضرورت گاہے بگاہے عوامی تحریکوں کو دبانے اور خوف و ہراس پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں آپریشن کئے گئے ہیں وہاں کے عوام اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ یہ ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں۔ آپریشن سے پہلے ہی ان علاقوں سے ’’گڈ طالبان‘‘ کو محفوظ راہ فرار مہیا کردی جاتی ہے اور عوام کا خون نچوڑ کر خریدے گئے میزائلوں اور ہتھیاروں کا نشانہ غریب عوام یا خالی پہاڑ بنتے ہیں۔ پہلے سے پسماندگی میں ڈوبے ان علاقوں کو ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر آپریشنز کے باوجود دہشت گردی کا عفریت جوں کا توں دندناتا پھر رہا ہے۔

ریاست کا اپنا بویا ہوا مذہبی انتہا پسندی کا بیج اب تناور درخت بن چکا ہے اور اور اس کا زہر پورے معاشرے کی رگوں میں پھیل چکا ہے۔ مشعل خان کا زخم ابھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے جو اسی انتہا پسندی اور ریاست کے اپنے پالے ہوئے غنڈوں کی بھینٹ چڑھا ہے۔ مارکسزم کے نظریات سے متاثر اس دلیر نوجوان کا جرم بس یہ تھا کہ اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن اور بڑھتی ہوئی فیسوں کے خلاف نعرۂ مستانہ بلند کیا تھا اور اس جرم کی پاداش میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ریاست کی پشت پناہی کے ساتھ جمعیت، تحریک انصاف اور پختون ایس ایف کے غنڈوں کی مدد سے توہین رسالت اور مذہب کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعے سے ریاستی اداروں کا کردار کھل کر سامنے آگیا اور اس بدصورت عریانی کو چھپانے کے لئے طرح طرح کے ڈھونگ رچائے جا رہے ہیں۔ پہلے اس پر پردہ ڈالنے کے لئے پانامہ کا تماشا لگایا گیا اوراب اس ڈرامے کی اگلی قسط احسان اللہ احسان کے ’انکشافات‘ ہیں۔

 

احسان اللہ احسان تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان ہے جس کے توبہ تائب ہونے کے قصے میڈیا پر صبح شام دکھائے جا رہے ہیں اور اسے ’ہیرو‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس درندے کے اعترافی بیان کو یہ سامراجی غلام ریاست اور اس کے ’مضبوط‘ ادارے اپنی کامیابی بنا کر پیش کررہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ طالبان کا نہیں بلکہ پاکستانی ریاست کا ترجمان بن گیا ہے۔ یہ وہی تحریک طالبان ہے جس کے ہاتھ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم اور بے گناہ بچوں کے خون سے رنگے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مشعل خان قتل کے بعد آنے والا عوامی ردعمل اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کی لہر کے نتیجے میں ریاست بری الذمہ ہونے کے لئے احسان اللہ احسان جیسے پالتو کتوں کا سہارا لے رہی ہے۔ احسان اللہ احسان سے دلوائے گئے بیان سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تمام تر ذمہ داری ’’را‘‘ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں پر ڈال کر اپنے ہاتھ صاف کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بھارتی حکمران طبقہ اور ریاست کشمیر اور دیگر علاقوں میں اٹھنے والی آزادی کی تحریکوں اور عوامی بغاوتوں کی ذمہ داری پاکستانی انٹیلی جنس پر ڈالتا ہے۔ حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی ریاست خود دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ مشعل اور آرمی پبلک سکول کے بچوں کا قتل عام انہیں ریاستی اداروں کی موجودگی میں ہوا تھا نہ کہ بھارتی فوج کی موجودگی میں۔ اس ملک کے محنت کش اور نوجوان دہشت گردی میں مارے جانے والے ہزاروں بے گناہوں، آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں اور مشعل خان کے بہنے والے خون کو بھولے نہیں اور نہ ہی بھول سکتے ہیں۔

عظیم مارکسی استاد اینگلز نے لکھا تھا کہ انسانیت کا مستقبل سوشلزم یا بربریت کے علاوہ کچھ نہیں اور آج کے حالات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ جہاں حکمران طبقہ اپنے منافعوں کی لالچ میں تہذیب کو برباد کردینا چاہتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں اس سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کے خلاف محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ مشعل خان کے قتل کے خلاف طلبہ کے احتجاج مستقبل قریب کی طلبہ تحریک کا ایک ٹریلر ہے۔ یہ ہمارا سائنسی یقین ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہ انسانوں بلکہ بھوک، غربت، افلاس اور بیماری کے ہاتھوں سسک سسک کر مرنے والوں کروڑوں لوگوں کے زخموں کا مرہم سوشلزم کے سوا کچھ نہیں۔ آج انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل سرخ سویرے کے لئے ناقابل مصالحت جدوجہد میں چھپا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.