ملتان: یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے طلبہ کا انتظامیہ کے خلاف بھرپور احتجاج

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

یونیورسٹی آف ایجوکیشن ملتان کیمپس کے طلبہ نے گذشتہ روز یونیورسٹی انتظامیہ کے ناروا رویے اور طلبہ دشمن اقدامات کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اس دوارن کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا۔ احتجاج کا آغاز صبح 7بجے ہوا۔ صبح سویرے طلبہ نے بوسن روڈ بلاک کر دی۔ اس سڑک پر تین معروف تعلیمی ادارے ہیں جن میں ایمرسن کالج ملتان، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن ملتان شامل ہیں۔ صبح جب طلبہ نے سڑک بلاک کی تو اس وقت دیگر اداروں کے طلبہ اپنے تعلیمی اداروں میں جا رہے تھے اسی وجہ سے اس بات کی خبر دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پھیل گئی اور چھٹی کے بعد دوسرے اداروں کے طلبہ نے بھی یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے طلبہ کے ساتھ اس احتجاج میں بھرپور شرکت کی۔ اس کے علاوہ طالبات جو کہ پرنسبل اور انتظامیہ کے جبر کا نشانہ بن رہی تھیں، نے مظاہرے میں بھرپور شرکت کی۔
اس سے ایک روز قبل7دسمبر کو بھی ایجوکیشن یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور مطالبات منظور نہ ہونے کی وجہ سے اگلے روز پھر مظاہرے کی کال دی گئی۔ پرنسپل اور انتظامیہ کے ناروا رویے اور فیسوں کی عدم ادائیگی پر طلبہ کی امتحانوں سے بے دخلی احتجاج کی وجہ بنی۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن سے بات کرتے ہوئے ایک طالبعلم کا کہنا تھا کہ’’ پرنسپل کا طلبہ کیساتھ رویہ انتہائی وحشیانہ ہے اور طلبہ پر رعب ڈالنے کیلئے وہ طلبہ کیساتھ انتہائی تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم طلبہ نہیں بلکہ مجرم ہیں اور یونیورسٹی میں کسی جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہمارے والدین کیساتھ بھی انتہائی تضحیک آمیز برتاؤ کیا جاتا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھے بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اکٹھا بیٹھنے سے برائی پھلیتی ہے مگر وہیں دوسری طرف پرنسپل صاحب خود لڑکیوں کو طوائف جیسے گھٹیا الفاظ سے پکارتے ہیں اور انکی عزت نفس کا کوئی خیال نہیں ہوتا انہیں اس وقت ‘‘۔
یونیوسٹی آف ایجوکیشن ملتان کے پرنسپل کا وحشیانہ پن اس قدر شدید ہے کہ چند دن پہلے اس نے تقریباً 200طلبہ کو فیسیں نہ دینے کی وجہ سے امتحان دینے سے روک دیا اور بغیر کسی وارننگ دیے یہ عمل کیا گیا۔ اسی طرح جو طلبہ بغیر یونیفارم کے امتحان دینے آئے تھے انہیں بھی امتحان دینے سے روک دیاتھا۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن ملتان کے پرنسپل کے اس رویے کے خلاف طلبہ میں شدید غصہ موجود تھا جس کا اظہار انہوں نے اس احتجاج میں کیا۔ اور اس احتجاج کی شدت کا اندازہ اس بات بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب لیڈرشپ بار بار یہ کہہ رہی تھی کہ احتجاج کو ختم کر دیں، یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمارے مطالبات مان لیے ہیں تو طلبہ صاف صاف انکار کر رہے تھے۔ انکار کرتے ہوئے سب یہ کہ رہے تھے کہ ہمارا مطالبہ پرنسپل کا تبادلہ ہے اور جب تک وہ خود باہر آ کر سب کو یہ یقین دہانی نہیں کراتا کہ وہ اب اور اس یونیورسٹی میں نہیں رہے گا تب تک ہم یہاں سے جانے والے نہیں۔ مگر کسی بھی احتجاج کے اندر لیڈرشپ کا کلیدی کردار ہوتا ہے اور اسکا کام اس تحریک کو درست راہ اور تحرک دینا ہوتا ہے جو اس احتجاج میں ادا نہیں ہو پایا جسکی وجہ سے آخر کار طلبہ کو یہ کہہ کر بیوقوف بنایا گیا کہ انکے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں اور وہ انتظامیہ کو کچھ دنوں کی مہلت دیں ۔

اس دوران پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنوں نے اس احتجاج میں بھرپور مداخلت کرتے ہوئے طلبہ کے سامنے واضح موقف رکھتے ہوئے انہیں یہ بتایا کہ انہیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور وہ اپنے مطالبات صرف ایک ہی صورت میں منوا سکتے ہیں جب وہ سب مل کر اور منظم ہو کر یہ لڑائی لڑیں گے اور لیڈرشپ تمام طلبہ کی رائے سے جمہوری طریقے سے چنی جائے جو ان کو جوابدہ بھی ہو۔ وگرنہ چند لڑکوں کا گروہ انتظامیہ کی میٹھی میٹھی باتوں میں آکر یا انتظامیہ کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوکر تحریک کو ناکام بنا دے گا۔ لیڈرشپ کے خصی پن کی وجہ سے وہ انتظامیہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے اور اس ہڑتال کو بالآخر ناکام بنا دیا گیا۔ طلبہ اس تجربے سے اسباق حاصل کریں گے اور آئندہ بہتر اور مزید لڑاکا قیادت سامنے آئے گی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.