|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، دادو|
گذشتہ روز پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے دادو میں ’’طلبہ سیاست‘‘ پر ایک نشست منعقد کی گئی جس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس نشست کے پہلے مقرر خالد جمالی تھے جنہوں نے طلبہ سیاست کی تاریخ اور موجودہ کیفیت پر بات کی اور کامریڈ سرمد بھرگڑی نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ کامریڈ خالد نے بتایا کہ برصغیرکے بٹوارے کہ ساتھ ہی پاکستان میں طلبہ سیاست اور طلبہ تنظیمیں وجود میں آئیں اور ان میں سے بیشتر بائیں بازو کا رجحان رکھتی تھیں اور روس کے 1917ء کے اکتوبر انقلاب اور سوویت یونین سے سے متاثر تھیں۔ ان میں ڈی ایس ایف اور پھر این ایس ایف سر فہرست ہیں۔ این ایس ایف کی تاریخ طلبہ سیاست میں شاندار جدوجہد کی تاریخ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ این ایس ایف کی جدوجہد صدر ایوب کے خلاف اور طلبہ کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد تھی۔ 1968-69ء میں جب پاکستان میں انقلاب شروع ہوا تو این ایس ایف نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرف داری کی۔ پھر جب ضیاء الحق کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوئی تو طلبہ سیاست پر پابندی عائد کی گئی اور جبر کے ذریعے طلبہ یونین کا خاتمہ کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ آمریت کو طلبہ کی جانب سے درپیش مزاحمت تھی۔ اس دوران پاکستان پیپلزپارٹی کی طلبہ تنظیم پی ایس ایف نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ ضیا آمریت کے خاتمے کے بعد پھر جب ’جمہوری حکومتیں‘ بھی آئیں انہوں نے بھی طلبہ یونین پر پابندی کا خاتمہ نہیں کیا۔ اس وقت سیاست کے افق پر کچھ باتیں طلبہ یونین کی بحالی پر ہو رہی ہیں۔ مگر جو حکمران یہ باتیں کر رہے ہیں وہ شاگردوں کی اس طاقت کو اپنے مالی مفادات اور اپنے طبقے کے مالی مفادات کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس بار یہ حکمران اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ناگزیر طور پر مزدور طبقہ اور طلبہ اس نظام پر سوال اٹھائیں گے جس کا جواب اس سماج کے ان حکمرانوں کے پاس کوئی نہیں۔ کامریڈ خالد نے کہا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں اتنی سکت ہی نہیں رہی کہ اپنی حیات کے لئے کوئی دلیل رکھتا ہو۔ اس کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا اور دیگر ساتھیوں نے موضوع پر بات کی جن میں کامریڈ سرمد، کامریڈ ستار اور عابد لغاری شامل تھے۔ سوالات کے جواب کامریڈ خالد نے دیے۔
اس نشست کے اختتام پر طلبہ یونین کی بحالی، تعلیمی اداروں کی نجکاری اور فیسوں میں اضافہ کے خلاف اور مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے ایک ریلی نکالی گئی جس کا اختتام پریس کلب دادو پر ہوا جہاں طلبہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔