|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،حیدرآباد|
9فروری بروز منگل پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ”موجودہ معاشی بحران اور طلبہ یونین کی اہمیت” کے عنوان پر قاسم آباد، حیدرآباد میں نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے شرکت کی۔پی وائی اے کے کامریڈ وحید نادان نے چیئر کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے طلبہ یونین کی اہمیت کا مختصر تعارف بیان کیا، اس کے بعد تفصیلی گفتگو کے لیے کامریڈ سرمد چانڈیو کو دعوت دی گئی۔
کامریڈ سرمد چانڈیو کا کہنا تھا طلبہ یونین جامعات میں طلبہ کا جمہوری نمائندہ ادارہ ہوتا تھا جس پر ضیاء آمریت نے 9 فروری 1984 کو پابندی لگائی وگرنہ 1968-69کی انقلابی تحریک کے دوران طلبہ یونین نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب ایک طالبعلم عبدالحمید کو ریاستی ادارے کی جانب سے شہید کیا گیا تو طلبہ یونین کے تحت ہی پورے پاکستان میں طلبہ ایک ہی ہفتے میں منظم ہوئے اورمزدوروں کے ساتھ گلیوں اور محلوں میں کمیٹیاں بنائیں اور”سوشلزم آوے آوے“کے نعروں کو پورے پاکستان کی گلیوں اور کوچوں میں پھیلایا۔ اس طرح طلبہ یونین کی منظم طاقت اور محنت کش طبقے کی جڑت نے ایک جابر اور مغرور حکمران جنرل ایوب کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وہ خوف ہے کہ آج تک تمام آمر اور جمہوری حکومتیں طلبہ یونین پر پابندی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
کامریڈ سرمد چانڈیو نے مزید کہا کہ جیسے عوام اپنے روزمرہ کے تجربات سے سیکھتے ہیں ویسے ہی حکمران طبقہ بھی اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ ضیاء الحق پچھلے آمروں کی طلبہ کے ہاتھوں شکست دیکھ چکا تھا اسی لیے اسں نے ریاستی غنڈوں کے ذریعے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اسلحہ کلچر کو فروغ دے کر طلبہ یونین پر پابندی عائد کی، اور تاحال یونیورسٹیوں میں انہی پالتو غنڈوں کا اجارہ ہے جبکہ طلبہ یونین کو محض باتوں اور پارلیمنٹ کے بلوں تک محدود رکھا گیا ہے۔ اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے کامریڈ سرمد چانڈیو نے کہا جیسا کہ سرمایہ داروں کے ہاں ہر چیز منافعے کیلئے بنائی جاتی ہے اسی طرح یہ تعلیمی ادارے بھی ان کے منافعے کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ آج کے عہد میں جس طرح سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران سے جوج رہا ہے اور قریب المرگ ہے اسی طرح طلبہ پر تعلیمی حملوں میں شدت آرہی ہے، فیسوں میں اضافہ ہورہا ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور دیگر بیسیوں مسائل شدت سے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں، ان سب سے لڑنے کا ہتھیار سوائے طلبہ کے جمہوری ادارے یعنی طلبہ یونین کے کچھ نہیں۔
اسکی مثال طلبہ کی حالیہ تحریک سے لی جا سکتی ہے کہ آن کیمپس امتحانات کے خلاف ایک خود رو تحریک بنی اور زیادہ تر تعلیمی اداروں میں طلبہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن اگر طلبہ یونین موجود ہوتی اور جامعات میں طلبہ منظم ہوتے تو اس تحریک کو طلبہ کے دوسرے مسائل کے ساتھ جوڑا جا سکتا تھا۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ ایک انقلابی تحریک کا آغاز ہے۔ پروگریسیو یوتھ الائنس کا اصل مقصد طالبعلموں کو اس نظام کے خلاف منظم کرنا اور اس نظام کے خا تمے تک جدوجہدہے اور یہ جدو جہدسوشلسٹ انقلاب تک جاری رہے گی کیونکہ طلبہ اور مزدوروں کے مسائل کے حل کا یہ واحد راستہ ہے۔
اس کے بعد کامریڈ سرمد سیال نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سوالات کے جوابات دیئے، کامریڈ چیئر نے آئے ہوئے طلبہ کا شکریہ ادا کیا، ان کو اس جدو جہد میں شامل ہونے کی دعوت دی اور یقین دلایا کہ پی وائے اے ہر محاذ پر طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔
مزدوروں کے عالمی ترانے اور انقلابی نعروں کے ساتھ سیشن کا اختتام ہوا۔