تعلیمی نظام کا بحران اور طلبہ سیاست

|تحریر : راول اسد|

ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ نوجوان سماج میں ان درخت کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں جو طوفان آنے کے وقت سب سے پہلے پھڑپھڑاتے ہیں۔ اس اقتباس کومارکسسٹ جتنا سنجیدہ لیتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ سرمایہ دار اور حکمران طبقہ لیتا ہے۔ کیونکہ حکمران طبقہ ہمیشہ اپنی حکمرانی کے خلاف اٹھنے والی بغاوت سے انتہائی خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس بغاوت کو روکنے کے لئے وہ تمام تر حربے استعمال کرتاہے جس میں میڈیا، عدلیہ، خاندان، اخلاقیات، موسیقی، فلمیں، نصاب وغیرہ شامل ہیں جن کے ذریعے حکمران طبقہ ایک عرصے تک اس بغاوت کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں سب سے زیادہ خوف حکمران طبقے کو سماج میں موجود نوجوانوں سے ہوتا ہے کیونکہ نوجوان سماج کی عمومی طور پر وہ پرت ہوتے ہیں جو عملی زندگی میں پہلا قدم رکھ رہے ہوتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام سے متعارف ہو رہے ہوتے ہیں۔

سیاسی و سماجی عمل میں نوجوانوں کی نا تجربہ کاری اور ابلتا ہوا خون نا انصافی کے خلاف بغاوت کے ایندھن کا کام سرانجام دیتا ہے ۔ اسی لیے حکمران طبقہ شعوری طور پر مسلسل نوجوانوں کو حقیقی مسائل سے دور کرنے کی ہرممکن کوشش او ر حربہ استعمال کرتا ہے۔
پاکستانی حکمران طبقہ بھی اس عمل میں دن رات، صبح و شام، ساتوں دن اور سال ہا سال سے مسلسل ہر ممکنہ کام کر رہاہے۔ پاکستان میں طلبہ سیاست کی شاندار اور عظیم الشان تاریخ گزری ہے جس نے ہمیشہ اپنے عہد کے حاکموں کے خلاف بغاوت کی صدائیں بلند کی ہیں، چاہے ایوب آمریت کا تختہ پلٹنا ہو یا ضیاالباطل کے جبر کے خلاف جدوجہد ہو، پاکستان کے نوجوانوں نے ہمیشہ پہلی صفوں میں کھڑے ہو کر بغاوت کا علم تھامے رکھا اور اپنی جانوں تک کا نذرانہ دیا ہے۔ طلبہ سیاست نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو جنم دیا اور ملکی سیاست میں ان کاکلیدی کردار رہا ہے۔ 1968-69ء کے انقلاب کے بعد کی دہائی میں طلبہ سیاست اپنے عروج پر تھی اور طلبہ نے حکمرانوں سے مفت تعلیم سمیت بہت سے حقوق چھینے۔

نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما رشید احمد خان 1968 میں ملٹری کورٹ سے نکلتے ہوئے۔

لیکن نظریاتی سیاست کے بحران اورانقلابی تحریک کی قیادت کی غداری اور زوال پذیری کے بعد مسلسل یہاں کے حکمران طبقے نے نوجوانوں کے لیے سیاست میں آنے کے تمام تر دروازے بند کرنا شروع کر دیئے۔ جس کے ردعمل میں نوجوان طلبہ نے شدید مزاحمت کی اور طلبہ سیاست کی بقا کے لیے جدوجہد کی گو اسے کامیابی سے ہمکنار نہ کیا جا سکا۔ شدید مزاحمت سے خوفزدہ ضیاء الباطل نے سیاسی وار کرتے ہوئے طلبہ تحریک کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ 1984ء وہ سیاہ سال تھا جب طلبہ یونین پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن اس عمل کے باوجود بھی طلبہ تحریک جاری رہی جس کو روکنے کے لئے ضیاء الباطل نے گھٹیا اور غلیظ ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کر دیے۔
پہلی بارضیا آمریت کی ایما پر طلبہ سیاست میں اسلحہ کلچر اورمنشیات کو متعارف کروایا گیا جس میں غنڈہ گرد اور دہشت گرد طلبہ تنظیموں کو ریاست کی آشیرباد پر کالجوں و یونیورسٹیوں میں انتظامیہ کے تعاون کے ساتھ کھلے عام اسلحہ سپلائی کیا گیا۔ ان غنڈہ گرد تنظیموں کے پاس پستول اور ہینڈگرنیڈ اس طرح پڑے ہوتے تھے جیسے پین ا ور رجسٹر پڑے ہوتے ہیں۔ اسلحہ کلچر کے ذریعے طلبہ و طالبات میں خوف و ہرا س پھیلا نے کی کوشش کی گئی اور ان کو اپنے حقوق کی جدوجہد سے روکا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان جہادسے مال غنیمت کے طور پر حاصل ہونے والی چرس اور افیم کو اس ریاست نے پاکستان کے ہر کالج و یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمروں میں سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا جو آج تک جاری ہے تاکہ طلبہ کوسماجی، نفسیاتی اور خاص کر سیاسی طور پر کمزور اور مفلوج کر دیا جائے۔ طلبہ سیاست کو اندر سے کھوکھلا کیا گیا۔ دوسری جانب بائیں بازو کی نظریاتی زوال پذیری اور طلبہ سیاست میں کوئی واضح حکمت عملی کے نہ ہو نے کی وجہ سے طلبہ سیاست مزید بحران کا شکار ہوئی۔ اس عمل میں غنڈہ گردی، بھتہ خوری، ذاتی مفادات کی سیاست نے طلبہ سیاست کا لبادہ پہن لیا اور مسلسل یہ عمل جاری رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ طلبہ نے اسی کو ہی طلبہ سیاست سمجھنا شروع کر دیا۔ بائیں بازو کی کسی پارٹی کی جانب سے کسی بھی نظریاتی و سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل کی عدم موجودگی وہ سبب بنی کہ ان سیاسی پارٹیوں کے اپنے طلبہ ونگ جو ماضی میں حقیقی طلبہ سیاست کا علم تھامے ہوئے تھے، وہ بھی اس غلیظ سیاست کا عملی حصہ بن گئے۔ طلبہ کو اپنے حقوق کی سیاست کرنے سے روکنے کے لئے آج بھی یونیورسٹی اور کالج انتظامیہ ان غنڈہ گرد تنظیموں کو پالتی ہے اور استعمال کرتی ہے اور لمبے عرصے سے کرتی چلی آرہی ہے۔
مگر بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ طلبہ سیاست کو ختم کرنے کے بعد بھی یہاں کے حکمران طبقے کے ذہنوں میں سے طلبہ تحریک کا خوف ختم نہیں ہوا ہے۔ اسی لئے یہاں پر طلبہ کوتقسیم کرنے اور ہر قسم کی ممکنہ جڑت سے روکنے کے لیے تعلیمی نظام کو بھی انہی خطوط پر استوار کیا گیا جس کے باعث تعلیم کے عمومی معیار کا بھی بیڑہ غرق ہو گیا۔ تعلیمی اداروں اور محکموں میں ایسے افرادکو انتظامی امور سپرد کے گئے جو قابلیت کے اعتبار سے نکمے ترین تھے لیکن حکمرانوں کے ٹاؤٹ تھے۔ انہوں نے نصاب سمیت تعلیمی نظام میں ایسی تبدیلیاں کیں جن کا مقصد تعلیم دینا نہیں بلکہ شعور سے عاری ایسے کارآمد غلام تیار کرنا تھا جو کسی بھی سرکاری جھوٹ کو سچ تسلیم کر کے اس پر ایمان لے آئیں اور خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں۔ تعلیم کے معیار اور طلبہ کے ساتھ اساتذہ کے برتاؤ میں جہاں منافع خوری، لالچ، پیسے کی ہوس اور نمود و نمائش کا عنصر غالب آتا گیا وہاں طلبہ کی کردار سازی کے بجائے انہیں پیسے کی دوڑ میں بھاگنے والی مشینیں بنا دیا گیا۔ سماج میں موجود عمومی بیگانگی، افرا تفری اور اخلاقی پراگندگی تعلیمی اداروں میں بھی حاوی ہونے لگی جس کے باعث تعلیمی درسگاہیں طلبہ کے شعور کی قتل گاہیں بن گئیں۔ وہ تعلیمی ادارے جو نظریاتی بحثوں، مذاکروں اورسیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتے تھے وہاں طلبہ کو غیر اخلاقی ویڈیوز اور اخلاق سے گری ہوئی گفتگو، جرائم اور منشیات کے استعمال میں الجھا کر گمراہ کردیا گیا۔ نظریاتی گفتگو کرنا ایک جرم بنا دیا گیا جبکہ سیاست ایک گالی بن گئی۔ دوسری وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ دار مذہبی طلبہ تنظیموں سے لے کر قوم پرست اور دیگر طلبہ تنظیمیں بھی تھیں جو ان اداروں میں ریاستی آشیر باد سے حاوی رہیں اور انتظامیہ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے ہوئے غنڈہ گردی کرتی رہیں۔ مشال خان کے قتل کا واقعہ تعلیمی اداروں میں موجود گراوٹ کا عملی اظہار ہے اور اس وقت پورے ملک کے تعلیمی اداروں کی عمومی صورتحال کا عکاس ہے۔
یونیورسٹی اور پروفیشنل کالجوں کی چند سو روپے کی فیس سے لاکھوں روپے کی فیسوں تک کا سفراپنے اندر بہت سے تضادات لیے ہوئے ہے۔ فیس میں اتنے بڑے پیمانے سے اضافے سے تعلیم کا معیار قطعاً بلند نہیں ہوا بلکہ اس میں ہر جگہ تیز ترین گراوٹ آئی ہے۔ دوسری جانب ان فیسوں کو بٹورنے کے لیے دھوکہ بازی کی ایک پوری صنعت وجود میں آ گئی ہے۔ اس صنعت میں یورپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام کی بھونڈی نقالی پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور طلبہ کو دھوکہ دیا جاتا ہے کہ انہیں دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے اور مغرب کی جدید تعلیم ان تک پہنچائی جا رہی ہے۔ گوکہ مغرب میں بھی تعلیم کے معیار میں شدید گراوٹ آئی ہے اور وہاں بھی تعلیم کی سہولت محنت کش طبقے سے دور ہو گئی ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہاں جدید تعلیم یا مغربی تقاضوں سے ہم آہنگی صرف ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ یہاں اساتذہ کی ان جدیدبنیادوں پر تربیت کا کوئی انتظام موجود نہیں اور اساتذہ کو انتہائی کم تنخواہ پر، جو اکثر ملتی بھی نہیں، جدید تعلیم دینے کامطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ملحقہ تحقیق اور دیگر نظام موجود نہیں۔ صرف نام کی حد تک مغربی طرز اپنایا جاتا ہے اوردیگر مواد مقامی حکمرانوں کی جاگیر دارانہ اور پسماندہ سرمایہ دارانہ سوچ کے مطابق موجود ہوتا ہے۔
حالیہ عرصے میں ’’سمسٹر سسٹم‘‘ کا نظام یہاں متعارف کرایا گیا ہے جس سے تعلیم کا معیار ’’جدید‘‘ ہونے کی بجائے مزید گراوٹ کا شکار ہوا ہے۔ جدید عالمی نظام تعلیم کے نام پر سمسٹر سسٹم نے طلبہ کو مکمل طور پر اپنے اندر جکڑ لیا ہے اور طلبہ کے شعور کو جلا بخشنے کی بجائے اسے مفلوج کرنے کا باعث بنا ہے اور وہ کسی فیکٹری کی مشین کے پرزے کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ سمسٹر سسٹم کے تحت عام طلبہ کے لیے سیاسی عمل کے پیدا ہونے کی گنجائش کو بھی ختم کیا جا رہا ہے اور سیاست صرف حکمران طبقے کی اولادوں کے لیے مختص ہو چکی ہے۔ جدید تعلیم کے قصیدہ خواں اس نظام تعلیم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن اس کے حقیقی کردار سے بے بہرہ نظر آتے ہیں۔ جدید نظام تعلیم کے نام پر طلبہ کے سیاسی حقوق کی خلاف ورزی کس طرح ہوتی ہے یہ جاننا آج کے طلبہ کے لئے بہت زیادہ ضروری ہوچکا ہے۔
سب سے پہلے جب ایک سٹوڈنٹ کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے داخلہ فارم فل کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ایک حلف نامہ بھی جڑا ہوا ہوتا ہے جس میں رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزی نہ کرنے کا عہد نامہ ہوتا ہے۔ مگر اس حلف نامے کی آخری لائن میں یہ بھی لکھا ہوا ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارے کی حدود میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیاں ممنوع ہیں۔ یعنی تعلیمی ادارے میں طلبہ کو اگر پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش ہے یا ہاسٹل میں میس کا مسئلہ ہے تو اپنے ان حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لئے طلبہ کسی بھی قسم کی کوئی آوازبلند نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ سمسٹرسسٹم کے تحت تمام تر طلبہ کے پاس یا فیل ہونے کا دارومدار طلبہ اور پروفیسرز کے درمیان تعلقات پر ہوتا ہے ،سیشنل نمبرز سے لے کر مڈ ٹرم اور فائنل ٹرم تک تمام طلبہ کے مستقبل کی ڈوری پروفیسرز کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ایسے میں پروفیسرز ان اختیارات کے بےجا استعمال میں قطعاً دریغ نہیں کرتے اورطلبہ کی مجبوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں اساتذہ کی قابلیت اور معیار میں بھی شدید گراوٹ آئی ہے اور غیر معیاری تعلیمی نظام سے سندیں حاصل کرنے والے بہت سے آج استاد بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اساتذہ کا اپنے مضمون کے بارے میں علم صرف چند کتابوں یا گیس پیپرز تک محدود ہوتا ہے اور جب کوئی طالب علم ان مخصوص گھسی پٹی کتابوں کے باہر سے سوال اٹھاتا ہے تو استاد اس کو اپنی گستاخی قرار دے کر سخت پیغام دیتے ہیں۔ اپنے علم اور برتاؤ کے ذریعے طلبہ کو متاثر کرنے اور انہیں اپنا گرویدہ بنانے یا احترام کروانے کی بجائے آج کل کے کئی استاد ایسے طالب علم کے خلاف انتقامی کاروائی کا آغاز کر دیتے ہیں۔ پروفیسر کی شان میں ایسی گستاخی ان کیلئے ناقابل برداشت ہوتی ہے اور طلبہ کے مستقبل کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ بہتر روزگار کے حصول کے لئے بہتر جی پی درکار ہوتی ہے جو پروفیسر کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر کچھ پروفیسر طالبات کو جنسی طور پرہراساں بھی کرتے ہیں جو آج کل ہر کالج اور یونیورسٹی میں معمول بن چکا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ایک کیس سامنے آیا ہے جس میں ایک استاد انٹر کے پریکٹیکل کے بورڈ امتحان میں طالبات کے ساتھ کئی سال تک نازیبا حرکات کرتا رہا لیکن کسی کو بھی اس کیخلاف آواز بلند کرنے کی جرات نہیں تھی۔ آخر کار جب ایک کالج کی چند طالبات نے آواز بلند کی تو ایک سو کے قریب طالبات نے ان کا ساتھ دیا اور اس پروفیسر کو مورد الزام ٹھہرایا۔
اس کے علاوہ تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اگر آپ نے انتظامیہ کے خلاف کسی بھی قسم کی آواز بلند کی یا اپنے حقوق کے لیے کسی بھی قسم کی سرگرمی کرنے کے بارے میں سوچا بھی تو آپ کو فیل کر دیاجائے گا۔ اس کے علاوہ سمسٹر سسٹم میں طلبہ کو مسلسل نا ختم ہونے والے گھن چکر میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ہر دوسرے مہینے امتحانات آجاتے ہیں کبھی مڈز تو کبھی فائنلز، اس کے درمیان پریزنٹیشنز اور اسائنمنٹس علاوہ ہوتی ہیں۔ اس تمام تر عمل میں طلبہ کو رٹے مارنے والی مشین بنا دیا جاتا ہے کیونکہ مقصد علم حاصل کرنا نہیں بلکہ پیپر پاس کرنا ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں طلبہ کو اتنا مصروف کر دیا جاتا ہے کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں یا اپنے حقوق کے لئے کسی بھی قسم کی سیاسی جدوجہد کے لئے وقت نہیں نکال سکتے۔ بڑے امتحانات میں نمایاں پوزیشن لینے والے طلبہ سے اگر جنرل نالج یا روزمرہ کے سوالات کیے جائیں تو مضحکہ خیز جواب سننے کو ملتے ہیں۔ اس بارے میں اکثر خبریں اخبارات کا حصہ بنتی رہتی ہیں جس میں کسی نوکری کے انٹرویو کے لیے امیدواروں کے مضحکہ خیز جواب شائع کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ اس تعلیمی نظام کی گراوٹ ہے جس میں نظریاتی بحثوں اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔ لیکن یہاں کے حکمرانوں کو ایسے ہی نمایاں طلبہ کی ضرورت ہے جو صرف سرمایہ داروں کی غلامی کر سکیں اور خود سے اہم فیصلے کرنے یا سیاسی شعور سے عاری ہوں۔ اسی لیے اگر طلبہ کسی طور سے اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے جڑنے کی کوشش کا آغاز کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے توانتظامیہ اساتذہ کے ذریعے ان پر دباؤ ڈالتی ہے اور ان کو امتحانات میں الجھا دیا جاتا ہے۔ ایک ہی ادارے یا ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ کی جڑت کو توڑنے کے لیے بھی امتحانی عمل کاناٹک شروع کیا جاتا ہے کیونکہ سمسٹر سسٹم کے تحت کسی بھی وقت امتحان لیا جا سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں امتحانات کی بہار پورا سال چھائی رہتی ہے۔ امتحانات کے اخراجات الگ ہوتے ہیں جبکہ ہر چھ مہینے بعد سمسٹر فیس ایٹم بم کی شکل میں آ گرتی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ تمام تر حکمت عملی جس کو بظاہر ’’جدید ترین نظام تعلیم‘‘ کے نام پر طلبہ پر نافذ کیا جاتا ہے دراصل اس کے پس پردہ حکمران طبقے کے مفادات چھپے ہیں اور طلبہ تحریک کا خوف ہے جس کو روکنے کیلئے حکمرانوں کی جانب سے یہ سب شعوری کوشش کے تحت کیا جا رہا ہے ۔ سرمایہ داری میں حاکم طبقہ اپنی حکمرانی کو جاری رکھنے کے لئے ہر سطح تک گر سکتا ہے۔ اس عمل سے ایک عرصے تک طلبہ کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے جو آج بھی جاری ہے لیکن اس کے باوجود آج طلبہ سیاست پھر سے انگڑائی لے رہی ہے۔ 
پچھلے عرصے میں طلبہ کے جو مسائل موجود رہے ہیں ان کے حل کی جدوجہد کیلئے طلبہ کسی حقیقی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی اور روایتی غنڈہ گرد تنظیموں سے بدظن رہنے کے باعث خود کوکسی بھی پلیٹ فارم کے گرد جوڑ نہ سکے۔ لیکن اس کے باوجود بھی بہت سے احتجاج نظر آئے ہیں۔ ان تمام تر مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور آنے والے عرصے میں بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس سب کیخلاف طلبہ کی شدید نفرت موجود ہے جو جلد ہی اپنا اظہار کرے گی۔ آج طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد اس گلے سڑے تعلیمی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کیساتھ جڑ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی طلبہ کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ایک ایسا نظام تعلیم لاگو کیا جائے جس میں طلبہ اپنی نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں جس میں سب سے اہم کردار ’’طلبہ یونین کی بحالی‘‘ کا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو ان کے بنیادی اور حقیقی مسائل کے حل کیلئے سیاسی و نظریاتی طور پر پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں منظم کر رہا ہے۔ 
’’جب نا انصافی قانون بن جائے تو بغاوت فرض بن جاتی ہے!‘‘ 
آئیں اس جدوجہد کا حصہ بنیں اور اس نظام کے خلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کی نوید بنیں!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.