|تحریر: علی عیسی|
جب ظلم کی بڑی عمارتیں بنا کر مظلومیت اور محکومیت پر عقوبت خانے میں تشدد کیا جائے تو بغاوت کے سورج کا ابھرنا لازم بن جاتا ہے۔ اس سورج کی روشنی کی کرنیں سب سے پہلے نوجوانوں پر پڑتی ہے۔ بالکل اسی طرح سندھ کے شہر دادو میں پیدا ہونے والا میر مہران خان بھی روشنی کی ان کرنوں سے بیدار ہوا تھا۔
کامریڈ مہران خان، نام نہاد مارکسوادیوں (Marxists) کی طرح جدلیات کے رٹے ہوئے فارمولے کا پابند نہ تھا۔ بلکہ وہ تو مارکسی استاد لینن کی میدان عمل پر جدلیات کو کارآمد کرنے کا پیروکار تھا۔ وہ کتابوں کی الماریاں پڑھ پڑھ کر لوگوں کو درس بغاوت نہیں دیتا تھا بلکہ طلبہ کے ہر مسئلے پر میدان عمل میں ہوتا تھا۔ کامریڈ مہران خان، ہر انقلابی کی طرح شہید چی گویرا کے اس قول کی عکاسی تھا کہ، جب ناانصافی قانون بن جائے تو بغاوت فرض ہوجاتی ہے۔
وہ ایک باشعور سیاسی کارکن تھا جس کی وجہ سے ان کو وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن کا دو مرتبہ مرکزی جنرل سیکٹری بننے کا اعزاز حاصل تھا۔ سات سال کی خاموشی کے بعد پہلی مرتبہ کامریڈ مہران سمیت اکثریت ساتھیوں نے سندھ یونیورسٹی میں سیاسی بندش توڑنے کا سہرا اٹھا کر 4 اپریل 2018 کو سندھ یونیورسٹی کے اندر معصوم صائمہ جروار کیس (معصوم بچی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا) کے خلاف مارچ کیا۔ یعنی خاموش دریا میں پتھر اچھالنے کا کام۔ اس کے علاوہ یونین کی بحالی، ہاسٹلوں مسائل سمیت ہر سماجی ناانصافی کے خلاف کامریڈ سرگرم نظر آتے تھے۔ پر افسوس 28 مارچ 2019 کا دن ایک بدقسمت دن بن کر آیا۔ لاہور عالمی مارکسی رحجان کی سالانہ گانگریس میں جاتے ہوتے ایک ٹرین حادثے کے سبب کامریڈ مہران خان ہم ساتھیوں کو تنہا کر گئے اور سرخ فوج کا ایک سپاہی اپنی جدوجہد چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ اب تاریخ نے اس جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی ذمہ داری کامریڈ مہران خان کے انقلابی و نظریاتی ساتھیوں کے کندھوں پر رکھ دی ہے۔ چلیں عہد کریں کہ جدوجہد فتح تک جاری رکھے گیں۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی۔
مہران تیرا مشن ادھورا
ہم سب مل کر، کریں گے پورا!