انتھک انقلابی کامریڈ امجد شاہ سوار کو لال سلام!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

16جنوری 2020، بروز ہفتہ کامریڈ امجد شاہ سوار کی جلا وطنی میں اچانک موت کی خبر سے اس کے سبھی رفقاء کے احساس کے نہاں گوشوں تک درد سرائیت کر گیا۔ اطلاعات کے مطابق 16 جنوری 2021ء کو ملائشیا کے شہر کوالالمپور میں حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث کامریڈ امجد کی موت واقع ہوئی۔ کامریڈ امجد کی صرف 44 سال کی عمر میں موت ان سبھی کے لیے افسردگی کا باعث ہے جو کبھی ان سے شناسا رہے، لیکن لازمی طور پر ان کے سیاسی رفقاء اور ان کے خاندان کے لیے یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ دکھ اور افسردگی کے اس عالم میں ہم کامریڈ امجد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ذیل میں درج چند سطور کے ساتھ تمام سوگواران اور بالخصوص ان کی تنظیم اور خاندان سے دل کی عمیق گہرائیوں سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں۔

اگرچہ چند سالوں سے کامریڈ امجد پاکستان اور کشمیر کی انقلابی جدوجہد میں خود جسمانی طور پر شریک نہیں تھے لیکن بھر بھی اس جلا وطنی سے پہلے کے دو عشروں تک اس نے کشمیر کی قومی آزادی سے لے کر پاکستان بھر میں مزدور تحریک اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں جو ولولہ انگیز کردار ادا کیا وہ نا قابلِ فراموش تھا اور رہے گا۔ ہر انقلابی کی شخصیت بھی تمام عام انسانوں کی طرح ہی کچھ خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہر انقلابی اپنی چند خوبیوں اور خصوصیات کے باعث اپنی ایک منفرد پہچان کا حامل بن جاتا ہے۔ اس بنیاد پر کامریڈ امجد کی اپنی ایک انوکھی پہچان رہی جو صرف اسی کا خاصہ تھا۔ وہ اپنے ہم عصروں میں سب سے نڈر اور جرات مندہونے کے ساتھ ایک باغی بھی تھا اور انقلابی بھی۔ ایک اور خوبی جو اس کے اندر جس درجے پر پائی جاتی تھی اس معیار تک کم ہی لوگ پہنچ پاتے ہیں، وہ اس کا بے خوف اور انتھک لڑاکا پن تھا۔ وہ جس راہ پر بھی چلا اسے کبھی رکنا یا تھکنا آیا ہی نہیں۔ اپنی جوانی اور زمانہ طالبعلمی میں وہ JKNSF کے پلیٹ فارم سے طلبہ حقوق اور کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنے ہم عصروں کے لیے بھی ایک قابلِ تقلید مثال بنا۔ اس نے اپنی ذات کو اپنے مقصد کے لیے یوں وقف کیا کہ اس کا جینا مرنا اس کی جدوجہد رہی۔ بعد ازاں IMT کے پلیٹ فارم سے مارکسی بین الاقوامیت کے نظریات کے پھیلاؤ کا بیڑہ اٹھایا تو اسی گرمجوشی، ولولے اور بے جگری سے لڑا جو اس کا اور صرف اسی کا خاصہ تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ اپنے خیالات میں جتنا انقلابی تھا ہمیشہ اس سے کچھ زیادہ عمل کو یقینی بنانے کی اہلیت رکھتا تھا۔ ذاتی، معاشی، خاندانی و دیگر مسائل کی رکاوٹیں جو بعض اوقات انقلابیوں کے عملی کردار کو کم کرنے کا باعث بنتی ہیں، اس کے کردار کو الٹا بڑھاتی رہیں۔ وہ جبری معاشی جلاوطنی کا شکار ہوا لیکن اس کا انقلابی جوش و جذبہ قائم رہا۔ اگرچہ 2016 میں IMT کے ساتھ اس کی سیاسی راہیں جدا ہو گئیں مگر پھر بھی اس کا انقلابی کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.