ملتان: بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے طلبہ لوڈ شیڈنگ اور سہولیات کی عدم فراہمی کیخلاف سراپا احتجاج

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے طلبہ ہاسٹلوں میں بے تحاشا لوڈشیڈنگ اور پا نی کی عدم دستیابی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گذشتہ روز یونیورسٹی کے طلبہ نے ان مسائل کے خلاف ریلی نکالی اور شدید احتجاج کیا۔ تفصیلات کے مطابق پچھلے ایک ہفتے سے ہاسٹلوں میں پوری پوری رات بجلی غائب رہتی ہے اور سارا سارا دن نہ پینے کیلئے پانی ہوتا ہے نا نہانے کیلئے۔ جس کے خلاف طلبہ نے پچھلے دو دن بھی رات کے وقت لگاتار احتجاج کیا مگر انکی ایک نہ سنی گئی۔ بالآخر 19اپریل کو طلبہ نے دن کے 2بجے 43ڈگری درجہ حرارت کے باوجود احتجاج شروع کر دیا۔اتنی گرمی میں احتجاج کیلئے نکلنا اس بات کی واضح نشانی ہے کہ طلبہ کس قدر تنگ تھے۔

احتجاج کیلئے جب طلبہ اکٹھے ہو کر ہاسٹلوں سے نکلے تو باہر یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈ کیمرے لئے کھڑے تھے جن سے وہ طلبہ کو ڈرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ سیکیورٹی گارڈوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی بھاری نفری بھی طلبہ کو احتجاج سے روکنے کیلئے کھڑی تھی۔ اس سب کے باوجود طلبہ نہیں رکے اور احتجاج کیلئے نکل پڑے۔یونیورسٹی کے مختلف ہاسٹلوں کے طلبہ اکٹھے ہو کر احتجاج کیلئے مین گیٹ کی طرف ایک ریلی کی صورت میں چل پڑے۔ طلبہ نے مین گیٹ کے سامنے والے چوک کو بلاک کر دیا اور اپنے مطالبات کیلئے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اسی دوران یونیورسٹی کی سیکیورٹی اور طلبہ کے مابین چھوٹی چھوٹی جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں سیکیورٹی والوں نے کیمروں کے ذریعے ڈرانے اور طاقت کے استعمال سے طلبہ کے احتجاج کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

طلبہ تپتی دھوپ میں تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک احتجاج کرتے رہے، نعرے بلند کرتے رہے مگر انتظامیہ کی طرف سے کوئی بھی ان کی بات سننے کو نہیں آیا۔ بالآخر مسلم لیگ نون کا طلبہ ونگ (مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن -نون) کے غنڈوں نے روایتہ طور پر غداری کرتے ہوئے انتظامیہ سے گٹھ جوڑ کر لیا اور طلبہ کو آ کریہ کہا کہ ہمارے مطالبات مان لیے گئے ہیں اور ان پر جلد ہی عمل ہو جائیگا۔ لہٰذا سب منتشر ہوجائیں۔جس پر پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن رفیع اللہ نے بھرپور مزاحمت کی اور طلبہ کو سمجھایا کہ وہ منتشر نہ ہوں اگر وہ منتشر ہوگئے تو ان کے مطالبات نہیں مانے جائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ رفیع اللہ نے نام نہاد طلبہ تنظیموں کا حقیقی چہرہ بھی طلبہ کو دکھایا جس کے بعد طلبہ نے منتشر ہونے سے انکار کر دیا۔ آخر کار انتظامیہ نے اپنی پالتو طلبہ تنظیموں کو حکم جاری کیا کہ تم ہم سے خاص مراعات کس بات کی لیتے ہو، جلدی یہ احتجاج ختم کرو۔ اس کے بعد پہلے طلبہ ہمدردی کا ڈرامہ کرنے کے بعد مختلف نام نہاد طلبہ تنظیمیں جن میں مسلم لیگ نون کا طلبہ ونگ (مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن)، جماعت اسلامی کا سٹوڈنٹ ونگ جمعیت اور پیپلز پارٹی کا سٹوڈنٹ ونگ پی ایس ایف شامل ہے، نے احتجاج کو مایوسی پھیلا کر ختم کرادیا۔احتجاج کے بعد تمام طلبہ جن کا تعلق کسی بھی طلبہ تنظیم سے نہیں ہے وہ شدید غصے میں تھے اور وہ تمام نام نہاد طلبہ تنظیموں کو گالیاں نکال رہے تھے۔

ایسا ہی واقعہ مردان یونیورسٹی کے طالبعلم مشعل خان کے ساتھ پیش آیا جو کہ طلبہ کے مسائل کے حل کے لئے ولی خان یونیورسٹی میں طلبہ کو منظم کررہا تھا جس سے خوفزدہ ہو کر انتظامیہ نے ریاستی مدد کے ساتھ اپنی پالتو غنڈہ گرد تنظیموں کے ہاتھوں جھوٹے الزامات لگا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آج پاکستانی ریاست اور حکمرانوں کے پاس محنت کشوں اور طلبہ کو دینے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں۔ محنت کشوں اور طلبہ پر نجکاری کے حملے کئے جا رہے ہیں۔ فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جو کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو یہ حکمران فوج، پولیس کے ساتھ ساتھ اپنی پالی ہوئی غنڈہ گرف تنظیموں کے حملے کرواتا ہے۔ ایسے میں طلبہ یونین کی بحالی بہت ضروری ہے۔ مشعل خان کے بہیمانہ قتل نے سیکیورٹی کا پول بھی کھول دیا ہے۔ طلبہ کی منتخب قیادت ہی نا صرف طلبہ مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کو آگے بڑھا سکتی ہے بلکہ تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کی بھی ضمانت دے سکتی ہے۔ آج طلبہ مسائل کے حل کے لئے ترقی پسند نظریات پر ہی جدوجہد کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

آج طلبہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ پوری دنیا کے حکمران طبقے کی طرح یہ بالکل نہیں چاہتا کہ یہاں کے محنت کشوں کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور ان کی ضرورتوں کے حل کیلئے پالیسیاں بنائی جائیں۔اس کی وجہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں حکمران طبقے کے ذاتی مفادات کا انسانی بنیادی ضروریات کیساتھ کھلا ٹکراؤ ہے۔ اگر حکمران طبقہ تعلیم مفت کر دے تو اتنے بڑے بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا ہوگاجو اس حکمران طبقے کا اربوں کا کاروبار ہے۔اسی طرح ہر جگہ پر حکمران طبقے کے مفادات محنت کش طبقے کے مفادات کیساتھ ٹکراتے ہیں۔ اپنے مطالبات منوانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے لڑ کر لینا۔ مگر اس لڑائی میں اپنی لیڈرشپ کا تعین سب سے اہم عنصر ہے۔ آج محنت کشوں اور طلبہ پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اور نام نہاد طلبہ تنظیمیں بنیادی طور پر حکمران طبقے کی ہی ہیں اور انہی کے مفادات کی سیاست کرتی ہیں۔آج خاص طور پر طلبہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے انقلابی سیاست نہایت ہی ضروری ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس کا یہی منشور ہے کہ اس سماج کو محنت کش طبقہ چلاتا ہے اور اسی طبقے کا تمام سیاست اور معیشت حق ہے نہ کہ اس طبقے کو جو کوئی کام بھی نہیں کرتا۔اسی منشور کیساتھ آج پروگریسو یوتھ الائنس پورے پاکستان میں حقیقی طلبہ سیاست کی بحالی اور فروغ کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔آیئے پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بنئیے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.