|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
31اکتوبر2017ء کو دن 12:30بجے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں مریم ہال (ہاسٹل)کی طالبات نے یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے بھرپور احتجاج کیا۔ طالبات نے یونیورسٹی سے باہر جانے کے راستے کو مکمل طور پر بند کر دیا۔ اسی طرح یونیورسٹی سے کسی ایک شٹل کو بھی باہر نہیں جانے دیا گیا۔ احتجاج کے دو بنیادی مطالبات تھے۔ ایک یہ کہ مریم ہال میں ایک کمرے میں2سے زیادہ لڑکیوں کو نہ ٹھہرایا جائے اور دوسرا یہ کہ اس سال ہاسٹل کی فیسوں میں ہونے والا اضافہ ختم کیا جائے اور سالانہ 35ہزار روپے کے بجائے 20ہزار روپے لیے جائیں۔ بی زیڈ یو ملتان میں دیگر ہاسٹلوں کی طرح مریم ہال میں بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن میں بمشکل 2طالبات اکٹھا رہ سکتی ہیں۔ ان کمروں میں پانچ پانچ طالبات کو اکٹھا رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہوا ہے۔ جب نئی طالبات نے داخلے لیے اور ہاسٹلوں میں طالبات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ہاسٹلوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ تقریبا ہر سال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سال بھی جب مریم ہال میں اس عمل کودوہرانے کی کوشش کی گئی تو طالبات کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور بالآخر وہ اپنے حق کیلئے باہر نکل آئیں۔ اسی طرح ہاسٹل کی فیسوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک ایسے کمرے میں جس میں دو بندوں کا رہنا بھی مشکل ہے وہاں پانچ پانچ کو ٹھہرا کر ان سے فیسیں بھی پہلے سے زیادہ مانگی جا رہی ہیں۔ جبکہ ہاسٹل میں وائی فائی، میس اور اسی طرح دیگر کئی ضروریات کی فراہمی کے مسائل بھی موجود ہیں۔
احتجاج ایک گھنٹے تک جاری رہا اور اس دورانیے میں یونیورسٹی کی سیکیورٹی ٹیم کو سب سے پہلے طالبات کو ڈرانے کیلئے بھیجا گیا۔ مگر انہوں نے ڈرنے سے صاف انکار کر دیا اور احتجاج جاری رکھا۔ اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کے دیگر لوگوں کو بھیجا گیا مگر بات نہ بنی۔ بالآخر VC کو خود آنا پڑا۔ VC نے احتجاج کو ختم کرانے کیلئے وقتی معاہدے کیے اور طالبات کو جھوٹی تسلیاں دیں کہ انکے مطالبات پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔ اور ان سے یہ وعدہ کیا کہ فوری طور پر ہر کمرے میں 3,3طالبات کو ٹھہرایا جائے گا۔ جس کے بعد طالبات نے وقتی طور پر احتجاج ختم کر دیا۔
احتجاج کے بعد وقتی طور پر ایک کمرے میں تین طالبات کو تو ٹھہرایا جا رہا ہے مگر جو نئے داخلے ہوئے ہیں ان کو سٹڈی رومز میں رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے جہاں کئی لڑکیوں کو اکٹھا رہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انہیں کئی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں طالبات میں ابھی بھی شدید غم و غصہ موجود ہے اور ایک نئے احتجاج کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے دیگر ہاسٹلوں کو دیکھا جائے تو یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مریم ہال کی طالبات کو جن مسائل کا سامنا ہے یہ ہر ہاسٹل میں موجود ہیں۔ ہر ہاسٹل کی طلبہ ان مسائل سے بہت تنگ ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ پر شدید غصہ ہیں۔ مریم ہال کی طالبات کے اس جرأت مندانہ قدم کی وجہ سے یقیناًدیگر ہاسٹل کی طلبہ کو بھی حوصلہ ملا ہے۔ جس کی بدولت جلد یا بدیر دیگر ہاسٹلوں میں بھی احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
اس احتجاج سے جہاں دیگر ہاسٹلوں کی طلبہ نے حوصلہ حاصل کیا ہے وہیں ان کو اس احتجاج سے اہم اسباق بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً جو مسائل ان کے ہاسٹل میں موجود ہیں وہ دیگر تمام ہاسٹلوں میں بھی موجود ہیں۔ لہٰذا ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے اور ہاسٹلز کے مسائل سمیت دیگر مسائل جیسے فیسوں میں اضافے، ٹرانسپورٹ کا فقدان وغیرہ کو شامل کرتے ہوئے ایک مشترکہ احتجاج کی جانب بڑھنا چاہیے۔
اس کی حالیہ مثال ہمیں قائد اعظم یونیورسٹی میں نظر آتی ہے جہاں طلبہ و طالبات نے مل کر پوری یونیورسٹی تقریبا 17دنوں تک بند رکھی جس کے نتیجے میں یونیورسٹی انتظامیہ کو ان کے مطالبات ماننا پڑے۔ اسی طرح کچھ دن پہلے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی طالبات نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رجعتی انتظامیہ کے خلاف ایک شاندار احتجاج کیا ہے۔
فیسوں میں بہت بڑے پیمانے پر ہونے والا اضافہ آج ایک ملک گیر مسئلہ ہے جو ہر تعلیمی ادارے میں مشترک ہے۔ آج ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ ایک مشترک مسئلے کے خلاف جدوجہد بھی مشترک بنتی ہے۔ اور ایک ملک گیر طلبہ تحریک ہی کے ذریعے فیسوں میں اضافے کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ پاکستان کا حکمران طبقہ جس نے اربوں ڈالر کے قرضے لے کر تمام سرکاری اداروں کو بیچنے اور ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کا تمام تر بوجھ محنت کشوں پر ڈالنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے، وہ کبھی بھی فیسوں میں اضافے کا خاتمہ نہیں کرے گا۔
فیسوں میں اضافہ، ہاسٹل کے مسائل اور دیگر مسائل کی بنیادی وجہ تعلیم پر انتہائی کم خرچ کرنا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ تعلیم پر اس لیے انتہائی کم خرچ کرتا ہے کیونکہ یہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا انبار لگا ہوا ہے اور اربوں کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے سے بے تحاشہ منافع کمایا جا رہا ہے۔ اسی لیے یہاں کا حکمران طبقہ سرکاری اداروں پر انتہائی کم خرچ کرتا ہے تا کہ اسکے منافعوں میں کمی نہ ہو۔ اس کے پیش نظر پروگریسو یوتھ الائنس نے پورے ملک میں #FeesMustEnd کے نعرے کے تحت ایک کمپئین کا بھی آغاز کیا ہوا جس کا مقصد فیسوں کا مکمل خاتمہ ہے اور اسکے ساتھ ساتھ تعلیم کے کاروبار کا بھی مکمل خاتمہ ہے۔