|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس نے 23مارچ بروز منگل کو بھگت سنگھ کی پھانسی کے نوے سال کی مناسبت سے”Bhagat Singh in Lahore: Legacy of a Revolutionary“ کے عنوان سے ایک دورے کا اہتمام کیا۔ اس دورے میں لاہور میں موجود بھگت سنگھ سے منسوب جگہیں جیسا کہ ریلوے سٹیشن، بریڈلے ہال، ہائی کورٹ اور شادمان چوک کا وزٹ کیا گیا۔ ان جگہوں کا بھگت سنگھ کے حوالے سے تاریخی پس منظر بتانے کے لئے”عالمی مارکسی رجہان“ کے مرکزی رہنما آدم پال موجود تھے۔ ٹوئر میں لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں جن میں پنجاب یونیورسٹی، نمل یونیورسٹی، لیڈز یونیورسٹی، ورچوئل یونیورسٹی اور نیشنل کالج آف آرٹس کے طالب علموں اور لاہور کے سیاسی کارکنوں نے بھرپور شرکت کی۔
دورے کے لئے ایک بس کا بندوبست کیا گیا تھا۔ جس کو ”نیشنل کالج آف آرٹس“کے طالب علم سالار مری نے ڈیکوریٹ کیا۔ بس کی دونوں سائیڈوں پر بینر لگائے گئے تھے۔ جن پر ”سوشلسٹ انقلاب زندباد!” اور ”بھگت کی راہ ہماری ہے، جنگ ہماری جاری ہے!“ لکھا گیا تھا۔ بس کے آگے ایونٹ کا فلیکس، پیچھے پروگریسو یوتھ الائنس کا جھنڈا اور بس کے اندر پلے کارڈز لگائے گئے تھے۔
دورے کا آغاز پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے ایبٹ روڈ پر واقع آفس سے پرجوش نعروں سے کیا گیا۔ سب سے پہلے شرکاء انقلابی گیت گاتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچے۔ ریلوے سٹیشن پر آدم پال نے ریلوے سٹیشن کا تاریخی اور سیاسی پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ ریلوے سٹیشن برطانوی سامراج کے دور میں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا۔ برطانیہ سے آنے والے ”سائمن کمیشن“ کیخلاف مقامی لوگو ں نے پورے ہندوستان میں احتجاجات شروع کر دیے۔ سائمن کمیشن کے لوگوں نے لاہور ریلوے ا سٹیشن پر اترنا تھا۔ یہاں پر بھی لالہ لاجپت رائے کی قیادت میں ”سائمن کمیشن“ کی مخالفت میں احتجاج ہو رہا تھا جس پر پولیس نے شدید لاٹھی چارج کیا۔ جس کے نتیجے میں لالہ لاجپت رائے اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ لالہ لاجپت رائے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ لالہ لاجپت رائے اس دور کے بڑے سیاسی لیڈروں میں سے ایک تھے جو برطانیہ سامراج کے خلاف لڑ رہے تھے۔ عوام میں ان کی موت کے بعد غصہ اور بھی بڑھ گیا اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت بڑھتی چلی گئی۔ اسی اثنا میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے لالہ لاجپت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ مزید انہوں نے کہا کے بھگت سنگھ اس سٹیشن سے اپنا بھیس بدل کر لاہور سے دیگر شہروں میں بھی گیا تھا۔
اس کے بعد تمام لوگ بھگت سنگھ کی پینٹنگ(جس کو پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن سالار مری نے بنایا تھا) لے کربریڈ لو ہال پہنچے۔ آدم پال نے اس جگہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ ماضی میں لاہور کا سیاسی اور ثقافتی مرکز ہوا کرتی تھی۔ لالہ لاجپت رائے نے اس ہال میں 1920ء میں ہندوستان کے نوجوانوں کے لیے نیشنل کالج بنوایا۔ جس میں بھگت سنگھ نے 1922 ء سے لے کر 1926 ء تک اپنی تعلیم حاصل کی۔ بھگت سنگھ جو اپنی کم عمری سے ہی انقلابی تھا اس کو مزید سیاسی ماحول میں رہنے کا موقع ملا اور اسی جگہ سے اس کے انقلابی سفر کا آغاز ہوا۔ نیشنل کالج کے ایک پروفیسر ودیا لنکر کے توسط سے بھگت سنگھ نے ”ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن“ جو ائن کی جو اس وقت کی واحد انقلابی پا رٹی تھی۔ اس سارے عرصے کے دوران روس میں ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے اثرات برِصغیر پر بھی پڑ رہے تھے اور بھگت سنگھ بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر سوشلزم کے نظریات نے بہت اثر کیا۔ سوشلزم کے نظریات سے روشناس ہونے کے بعد بھگت سنگھ نے ”ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن“ کا نام بدل کر ”ہندوستان سوشلسٹ ریپبلیکن ایسوسی ایشن“رکھا جو بھگت سنگھ کے سوشلزم کے نظریے پر یقین کی واضح مثال ہے۔ ٹو ئر کے تمام شرکاء نے بریڈلو ہال کاوزٹ کیا اور اپنی تصویریں بنوائیں۔
اسکے بعد تمام لوگ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے پہنچے۔ آدم پال نے بھگت کے حوالے سے اس جگہ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھگت سنگھ پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ بھگت سنگھ اسی عدالت سے ہی اپنے نظریات پریس کے ذریعے عوام تک پہنچاتا تھا۔ یہ بات برطانوی سامراج کے لئے پریشان کن تھی۔ انہوں نے اس لئے بھگت سنگھ کے مقدمے کو غیر معمولی تیزی کے ساتھ چلایا اور اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین اور تمام تر انسانی اصولوں کو روند تے ہوئے بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ عدلیہ اور پولیس کا نظام انگریزوں نے متعارف کروایا تھا اور ان ادارو ں کا مقصد صرف او ر صرف برطانوی سامراج کے مظلمانہ عزائم کی حفاظت کرنا تھااور عوام میں خوف پیدا کرنا تھا۔ آج بھی ان اداروں کا کردار کوئی مختلف نہیں ہے۔آج بھی یہ ادارے سرمایہ داروں، وڈیروں اور حکمرانوں کے تحفظ کیلئے ہیں نہ کہ عوام کے مسائل کے حل کیلئے۔ منافع پر مبنی اس نظام نے ہر چیز کو ایک جنس بنا کر رکھ دیا ہے اور انصاف بھی ایک بھاری قیمت کے ساتھ اس منڈی میں موجود ہے جو اسکو خریدنے کی حیثیت رکھتا ہے تووہ خرید سکتا ہے اور جو نہیں خرید سکتا اس کے لیے اس نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس بات کی نشاندہی بھگت سنگھ نے کی تھی کہ انگریزوں کے جانے کے بعد عام آدمی کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آئے گا انگریزوں کے بعد یہاں کے سرمایہ دار ور وڈیرے اقتدار سنبھال لیں گے، مذہب اور ذات پات کی بناء پر ایک ایسی آگ لگے گی جس کو بجھاتے بجھاتے ہماری نسلیں ختم ہو جائیں گی۔ اسلیئے ہمارا مقصد صرف انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ اس استحصال پر مبنی پورے نظام کو بدلنا ہے۔ اور بھگت سنگھ کا یہ مشن آج بھی ادھورا ہے۔
آخر میں قافلہ شادمان چوک کی طرف روانہ ہوا۔ سفر کے دوران بس میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان ساحر جان، فضیل اصغر، بابر علی، اسرار خان، صابر، وریشا، رائے اسد اور ثناء جلبانی نے مل کر انقلابی نظم”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ گا کر سنائی۔ انقلابی گیتوں کے ساتھ بس شادمان چوک پہنچی۔ آدم پال نے اس جگہ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ چوک پہلے لاہور سینٹرل جیل کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اسی جگہ پر بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی راج گرو اور سکھ دیو کو ان کی پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے رات کی تاریکی میں پھانسی دی گئی تھی۔ بھگت سنگھ اوراسکے ساتھیو ں کے انقلابی نظریات عوام تک پہنچ چکے تھے اور ان کی پھانسی کے خلاف عوام سراپا حتجاج تھے۔ اسلیئے عوام کی بغاوت سے بچنے کیلئے بھگت اور اسکے ساتھیوں کو پھانسی کی مقرر کردہ تاریخ سے ایک دن پہلے ہی پھانسی دے دی گئی۔ شرکاء نے شادمان چوک پر پرجوش نعرے بازی کی اور بھگت سنگھ کے پورٹریٹ کے ساتھ گروپ تصویر بنوائی۔
ساتھیو! بھگت سنگھ کے حقیقی نظریات اور کردار انقلابیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جس طرح اس نے برطانوی سامراج کے جبر کا مقابلہ کیا اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنے نظریات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پھانسی کے پھندے کو جس خوشی اورمسکراہٹ سے اس نے چوما تھا اس نے بھگت سنگھ کو تاریخ میں امر کر دیا ہے۔ اور اب بھگت کے مشن کو پورا کرنا آج کے انقلابی نوجوانوں کا انقلابی فریضہ ہے تا کہ ایسا سماج تعمیر کیا جائے جس میں ظلم و جبر، غربت اور ناانصافی کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔
بھگت کی راہ ہماری ہے جنگ ہماری جاری ہے!
سوشلسٹ انقلاب زندباد!