|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
بلوچستان یونیورسٹی میں حالیہ دنوں میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مختلف واقعات کا انکشاف ہوا تھا جس پر ایف آئی اے کی جانب سے متاثرہ طالبات کی شکایت پر نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے اسٹاف آفیسرز، لیکچررز اور انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں سمیت پانچ ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ سیکورٹی سٹاف سے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے بنائی گئی خفیہ ویڈیوز اور دیگر نازیبا مواد بھی قبضے میں لیا گیا ہے، جبکہ ایف آئی اے کے مطابق مزید 200 ملازمین سے تفتیش جاری ہے اور اس کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے جن میں نئے واقعات کا بھی انکشاف ہونا ممکن ہے۔ علاوہ ازیں اس سلسلے میں متاثرہ لڑکیوں نے ایف آئی اے کے حکام کو اپنی شکایات درج کرائیں ہیں جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ اب تک اس حوالے سے کوئی واضح موقف اپنانے سے گریزاں ہے۔ کیونکہ ان سارے واقعات میں یونیورسٹی انتظامیہ براہ راست ملوث ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس جو کہ ملک بھر میں طلبہ کے حقوق کے لئے سرگرم عمل ہے، جنسی ہراسگی سمیت طلبہ کے دیگر بنیادی مسائل پر ہمیشہ کھل کر اپنے موقف کا اظہار اور انکے خلاف جدوجہد کرتی آئی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں حالیہ سکینڈل کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے بلکہ جنسی ہراسگی کا سلسلہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں موجود ہے۔ موجودہ سماج میں عورتوں کا جہاں گھر کی چار دیواری کے اندر استحصال ہوتا ہے وہیں گھر سے باہر بھی ہوتا ہے، چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں یا کام کرنے کی جگہیں ہوں۔ اس تمام صورتحال میں عورت کو ایک ’شے‘سمجھ کر استحصال کیا جاتا ہے اور آئے روز ان کے ساتھ وقوع پزیر ہونے والے سینکڑوں واقعات منظر عام پر آتے ہیں،لیکن اس کے ساتھ بے شمار ایسے واقعات بھی ہیں جو معاشرتی دباؤ اور خوف کی وجہ سامنے نہیں آتے۔
یاد رہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کی اپنے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد پر غیر اعلانیہ پابندی ہے جبکہ یونیورسٹی کے اندر طلبہ کا کوئی نمائندہ پلیٹ فارم یا طلبہ یونین موجود نہیں ہے۔ انتظامیہ طلبہ حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے کسی بھی سرگرمی کا راستہ روکے رکھتی ہے تاکہ ادارے کے اندر اپنی من مانیاں اور عیاشیاں جاری رکھنے، کرپشن اور لوٹ مار کرنے، فیسیں بڑھانے اور طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لئے ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے مختلف مظالم، ہراسمنٹ، جنسی جبر، ریپ اور دہرا استحصال جیسے مسائل کی جڑیں اس موجودہ ملکیتی نظام میں پیوست ہیں جس کے اندر عورت کو انسان کے بجائے مرد کی ملکیت سمجھا جاتا ہے اور مرد کی ہوس بھری نظریں عورت کو ایک ’شے‘ سمجھ کر اپنی تسکین کے لئے استعمال کرنے پر ٹکی رہتی ہیں۔ اس تمام تر ظلم اور جبر کے خلاف طلباء اور خاص کر طالبات کو مل کر عملی جدوجہد کے اندر آنا ہوگا۔ منظم جدوجہد کے ذریعے ہی اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس ملک بھر میں طلبہ کے اوپر جبر اور ظلم کو روکنے کے لئے جدوجہد کے اندر طلبہ کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم کرتی ہے۔ ہر جزوی لڑائی کیخلاف جدوجہد کو طلبہ کی عمومی جدوجہد کے ساتھ ملاتے ہوئے اس نظام کے خلاف ایک مسلسل لڑائی کرنے کا عزم کرتی ہے۔
جنسی ہراسگی میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ سیاست پر غیر اعلانیہ پابندی کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔
بلوچستان یونیورسٹی سے سکیورٹی فورسز کا انخلاء کیا جائے۔
طلبہ یونین کو بحال کیا جائے۔