بلوچستان: بلوچستان یونیورسٹی ہراسمنٹ سکینڈل کے خلاف نام نہاد تفتیشی کمیٹی کے مجرمانہ فیصلے کو مسترد کرتے ہیں


|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

Balochistan University rejects criminal verdict of so-called inquiry committee against harassment scandal

بلوچستان یونیورسٹی میں پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ایک شرمناک سکینڈل سامنے آیا جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے لیکر کئی پروفیسر اور لیکچرر،سیکیورٹی چیف،سیکورٹی کے نام پر بلیک میلر پوری ٹیم اور ہاسٹلوں کا عملہ سب شام تھے۔

شروعات میں جب یونیورسٹی کی طالبات نے انتظامیہ کے اہلکاروں کے خلاف کیمپین کی تو انتظامیہ کے کان کھڑے ہوگئے۔سب سے پہلے تو اس معاملے کو دبانے کی بھر پور کوشش کی گئی لیکن جب یہ معاملہ کھل کر سامنے آیا تو انتظامیہ اور وائس چانسلر سب نے مل کر ہر حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ اس سکینڈل کو کسی طرح سے چھپایا جائے اور طلبہ کےاندر موجود غصے اور نفرت کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔

اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ بشمول وائس چانسلر سب نے طلبہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے نام نہاد تفتیشی کیمیٹیاں اور کمیشن بنانے کے اعلانات شروع کر دیے اور طلبہ کو یہ باور کرانے کی حتی المقدور کوشش کی گئی کہ یہی عدالتی کاروائی،یہی کمیشنز اور یہ تفتیشی کمیٹیاں ہی مثاثرہ طالبات کو انصاف فراہم کریں گی۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے باقاعدہ بلیک میلنگ کیلئے اپنے گینگز بنائے تھے جو خفیہ کیمروں کے ذریعے طالبات کو بلیک میل کرتے ہوئے انہیں اپنے چنگل میں پھنساتے اور پھر یہ سب بھیڑیے انہیں طالبات کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے تھے۔

شروعات میں تقریبا 200 انتظامیہ اہلکاروں کو زیر تفتیش لایا گیا تھا جن کے خلاف اس سکینڈل میں ملوث ہونے کی شکایت تھی اور ان میں اکثر اعلی عہدوں پر فائز لوگ شامل تھے۔

نام نہاد تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ کیلئے انتظامیہ نے بہت مختصر وقت مانگا تھا لیکن اس رپورٹ کو عدالت میں پیش ہوئے کو ایک سال ہو چکا ہے اور آج یہ فیصلہ شعوری طور پر ایک ایسے وقت اور حالات میں سنایا گیا جب ان کو اندازہ ہے کہ اب چونکہ کرونا وباء کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہے اور طلبہ یونیورسٹی میں موجود نہیں ہیں لہذا اس موقع کو مناسب جان کر یہ شرمناک رپورٹ پیش کی گئی ہے۔اس سکینڈل میں ملوث تمام بڑے بڑے مجرمان کو بری کرتے ہوئے ایک سیکیورٹی گارڈ کو برطرف کرکے معاملے کو ختم کر دیا گیا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس شروع دن سے اس قسم کی نام نہاد حکومتی تفتیشی کمیٹیوں کو جھوٹ اور دھوکہ قرار دے رہا تھا جو کہ آج درست ثابت ہوا ہے۔

دوسری طرف طلبہ نے اس وقت اس سکینڈل کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا لیکن اس تمام عرصے میں طلبہ کی قیادت کے نام پر موجود روایتی طلبہ تنظیموں کا انتہائی غلیظ کردار اور ان کی سیاست کی محدودیت بھی تمام طلبہ کے سامنے عیاں ہو گئی ہے۔جن میں سے کچھ نے اس معاملے کو بلوچ و پشتون مسئلہ بناتے ہوئے طلبہ کی اس تحریک کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ بعض تنظیمیں انتظامیہ کے اس مشترکہ جرم کو ایک فرد،وائس چانسلر، تک محدود کرتے ہوئے اس پورے سسٹم کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں۔جس سے انکی انتظامیہ کیساتھ کسی نہ کسی شکل میں وابستگی منعکس ہو رہی تھی جبکہ کچھ لبرل این جی اوز اور فیمینسٹ عناصر اس مسئلے کو صنفی مسلہ بنا کر طلبہ کو جنس کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان تمام حالات میں پروگریسو یوتھ الائنس نے جہاں عملی طور پر اس گھناؤنے جرم کے خلاف احتجاج کیے اور ریلیاں نکالی وہیں ہم نے یہ صاف طور پر واضح کیا تھا کہ:

“اس جرم میں ملوث افراد کو اصل سزا تفتیشی کمیٹیاں،حکومتی ادارے، پولیس یا عدالت وغیرہ نہیں دے سکتے اور انہیں عہدوں سے ہٹایا بھی جائے(اور واقعی ہٹانے کے علاوہ سخت سزا بھی دینی چاہیے) تو یہ سلسلہ اس نظام کے اندر موجود رہے گا۔جب تک طلبہ کی ایک مظبوط نمائندہ قوت اور منظم پلیٹ فارم (طلبہ یونین) موجود نہ ہو۔لیکن اس وقت تمام احتجاجوں اور ریلیوں کے اندر ”وی سی ہٹاو“ جیسے سطحی مطالبے کے علاوہ کوئی خاص سیاسی حل اور پروگرام سامنے نہیں لایا جا سکا ہے۔ان مجرموں کو سزا دینے اور ایسے مسائل کا مستقل طور پر راستہ روکنے کا اصل کام نام نہاد کمیٹیوں کی بجائے طلبہ کی ایک متحد اور آزادانہ قوت ہی کر سکتی ہے۔طلبہ کو ہراسمنٹ کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تعلیمی مسائل کے حل اور طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو اس لڑائی میں جوڑنا ہوگا”۔

آج اس نام نہاد عدالتی کاروائی اور تفتیشی کمیٹیوں کی گھناؤنی حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ یہ طلبہ کے ساتھ ایک دھوکہ تھا۔

پروگریسو یوتھ الائنس اس رپورٹ کو مسترد کرتا ہے اور طلبہ پر پھر واضح کرنا چاہتا ہے کہ یہ کمیٹیاں ان مجرموں کو اور یونیورسٹی کے اس پورے کرپٹ بلیک میلر سیٹ اپ کو بچانے کیلئے بنائی گئی تھیں۔

لہذا ان مجرموں کو اصل سزا اس وقت دی جا سکتی ہے جب ملک بھر میں طلبہ کی نمائندہ قوت بنانے کی جدوجہد کو تیز کیا جاتا ہے اور  پورے ملک کے طلبہ کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد کرتے ہوئے انکی سیاسی و نظریاتی تربیت بھی کی جاتی ہے جوکہ اپنے تعلیمی حقوق کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے تعلیمی نظام میں موجود طلبہ دشمن اور سماج دشمن اقدامات اور پالیسیوں کیخلاف لڑ سکیں۔طلباء و طالبات کے ساتھ ہر قسم کے ہراسانی کے خلاف جدوجہد کریں،مفت تعلیم اور طلبہ یونین کا نعرہ بلند کر سکیں۔غربت،بے روزگاری،قومی و صنفی جبر، لسانی جبر، مذہبی جبر اور ان تمام مظالم کی بنیاد طبقاتی جبر اور تقسیم پر مبنی اس تعفن زدہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرسکیں اور یہاں ایک نئے منصفانہ اور انسان دوست یعنی سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھ سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.