بلوچستان: یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی خضدار کا مسلسل فیسوں میں اضافہ نامنظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

 

 

 

کورونا وباء نے جہاں دنیا میں کروڑوں لوگوں کو بے روزگاری اور غربت کی بھٹی میں دکھیل دیا ہے وہیں ریاستِ پاکستان مسلسل محنت کش عوام اور نوجوانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بنیادی ضروریات بھی چھین رہی ہے اور آئے روز مہنگائی، لاعلاجی، بد امنی، جبری گمشدگیوں، ڈاون سائزنگ اور مہنگی تعلیم کی صورت میں حملہ آور ہو رہی ہے۔

بلوچستان جو کہ وسائل سے مالا مال صوبہ ہے لیکن زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم یہ ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے، جہاں دو وقت کی روٹی سے لے کر روزگار، علاج، صاف پانی اور تعلیم ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ یہاں پر تعلیمی ادارے پاکستان کے دوسرے صوبوں سے بھی زیادہ قلیل ہیں اور آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو نا ہونے کے برابر ہیں اور دوسری طرف جو تعلیمی ادارے موجود ہیں وہ جیل خانوں سے کم نہیں کہ صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف بلوچستان میں مسلح اداروں کے اہلکار دن رات گشت کرتے ہیں اور باقاعدہ اسی تعلیمی ادارے سے ارد گرد کے علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور یہیں پر اپنی ٹریننگ اور پریڈ کرتے نظر آتے ہیں۔

کورونا وباء کی وجہ سے جب تعلیمی اداروں کو بند رکھنا پڑا تو ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ نام نہاد آن لائن کلاسز کا بھونڈا مذاق کیا جب کہ غربت اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ محنت کش عوام بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں ایسے میں طلبہ کسی صورت آن لائن کلاسز کے لیے لوازمات کا انتظام نہیں کر سکتے تھے۔ ان آن لائن کلاسز کا واحد مقصد طلبہ سے فیسیں بٹورنا تھا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تعلیمی ادارے طلبہ سے آن لائن کلاسز کی مد میں اندھا دھند فیسیں وصول کر رہے ہیں۔لیکن کسی تعلیمی ادارے کی جانب سے طلبہ کو آن لائن کلاسز کے لیے کوئی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔

اسی اثناء میں جہاں ملک بھر میں ساڑھے دو کروڑ بچے تعلیمی اداروں سے باہر محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں وہیں بلوچستان میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، خضدار اس خطے کی ایسی واحد یونیورسٹی ہے جس میں کم فیسوں کے باعث کسی حد تک محنت کش عوام کے بچے تعلیم حاصل کر پاتے تھے۔ باقی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں عام محنت کش طبقے کے طلبہ کے لئے بھاری فیسوں اور اخراجات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔ لیکن بلوچستان میں قائم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، خضدار کی انتظامیہ سال ہا سال سے فیسوں میں اضافہ کر رہی تھی اور اس سال بھی دس فیصد اضافہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں داخلہ فیس جو پہلے 2000 روپے تھی اب بڑھا کر 4000 روپے کر دی گئی ہے، جو کہ طلبہ کے ساتھ زیادتی اور انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ فیسوں میں اضافے کی وجہ سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر اخراجات کا شدید بوجھ بڑھنے کا خدشہ ہے اور یہ ریاست کی جانب سے طلبہ کے لیے تعلیمی سرگرمیاں منجمد کرنے اور تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، خضدار کی جانب سے فیسوں میں اضافے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اضافے کو مسترد کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ فیسوں میں اضافے کو فی الفور واپس لیا جائے اور طلبہ یونین کو بحال کیا جائے تاکہ طلبہ کے ان مسائل کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں آبادی کے تناسب سے تعلیمی ادارے قائم کرے اور ہر سطح پر مفت تعلیم کو یقینی بنائے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اگر اپنے اس عمل کو روک کر فیسوں میں مسلسل اضافے کو ختم نہیں کرتی اور اگر حکومتِ وقت بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی غنڈہ گردی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی تو طلبہ کو متحد ہو کر اس سب ظلم و زیادتی کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی اور پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو منظم کرنے اور ان تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف جدوجہد میں ہراوّل کا کردار ادا کرے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.