|رپورٹ:پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
کرونا وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ہر بڑے اور چھوٹے ملک کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور لاکھوں افراد اب تک اس وباء کا شکار ہو چکے ہیں اور کروڑوں اس سے اپنی جان بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔دنیا کا پورا نظام اس وباء کے سامنے ناکام ہوچکا ہے۔ہر ملک کا حکمران طبقہ اپنی عوام پر شدید معاشی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔عوام کو ریلیف دینے کی بجائے آئے روز مہنگائی میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور لوگ بیروزگار ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان جیسا پسماندہ ملک کرونا وباء کے سامنے بالکل بے بس ہوچکا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد۱108,000سے اور مرنے والوں کی تعداد 2100 سے تجاوز کرگئی ہے۔لیکن حقائق اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ کچھ روز قبل ہی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف لاہور میں متاثرین کی تعداد سات لاکھ کے قریب ہے۔
جہاں ایک طرف ریاست سرمایہ داراوں کو ریلیف پیکیجز اور مراعات دے رہی ہے وہیں غریب عوام کے گھروں میں فاقے پڑ رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔
پاکستانی ریاست کا انفراسٹرکچر انتہائی پسماندہ ہے۔یہاں کا تعلیمی شعبہ وباء سے پہلے بھی بدتر سے بدترین ہو چکا تھا۔ہر نئی حکومت کے آنے کیساتھ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کر دی جاتی ہے۔ابھی حال ہی میں HEC کے بجٹ میں پچاس فیصد تک کٹوتی تبدیلی سرکار نے کی۔
ایسی صورت حال میں ایچ،ای،سی اور ریاست پاکستان نے بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا ہے جو یہاں کے طلبہ کیساتھ بھونڈا مذاق ہے۔
بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے اندر بھی آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جا رہا ہے جہاں لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔دو وقت کی روٹی سے لیکر تعلیم،صحت، بجلی،گیس،روزگار اور یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔انٹرنیٹ کی سہولت اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں میسر نہیں جن میں گوادر، پنجگور، تربت، آواران، ہرنائی اور قلات سمیت کئی دیگر علاقاجات شامل ہیں۔اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں خراب کنیکشنز کی وجہ سے بمشکل ایک فون کال ہی کی جاسکتی ہے۔انٹرنیٹ کنیکشن اور 3g/4g کی سہولت بمشکل ہی کہیں میسر ہے۔ایسے میں آن لائن کلاسز کا اجراء ناممکن ہو جاتا ہے اور طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔یہ نہ صرف طلبہ کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنا ہوا ہے بلکہ غریب اور محنت کش والدین کو بھی پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔
بلوچستان کے اکثر تعلیمی اداروں کے بعد بلوچستان ایگریکلچر کالج کوئٹہ کی انتظامیہ نے بھی آن لائن کلاسز کے اجراء کا باقاعدہ اپنی ویب سائٹ پر اعلامیہ جاری کر دیا ہے جس کے خلاف طلبہ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں اور آن لائن کلاسز کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور تمام فیسیں معاف کرنے اور سمیسٹر بریک کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کالج کی انتظامیہ بخوبی جانتی ہے کہ اکثر طلبا و طالبات کا تعلق بلوچستان کے دور دراز غریب علاقوں سے ہے جہاں پر انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں اور یہ بھی کہ اکثر طلبہ کے پاس لیپ ٹاپس اور اچھے اسمارٹ فونز بھی موجود نہیں ہیں۔
بلوچستان ایگریکلچر کالج کی انتظامیہ کی اپنی نااہلی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ مسلسل فیسوں میں اضافے کے باوجود وہاں پر رہائش پذیر اور باقی تمام طلبہ کو بنیادی سہولیات جیسا کہ 24 گھنٹے بجلی اور پینے کے صاف پانی کیلئے واٹر کولر تک مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔انٹرنیٹ کنیکشن جو کہ ایک تعلیمی ادارے میں بنیادی ضرورت ہے،بھی ناپید ہے۔ایک اسائینمنٹ بنانے اور پرنٹ کرنے کیلئے کوسوں دور بازار کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔اس انتہا درجے کی بے حسی سے کالج انتظامیہ کی نااہلی اور بد عنوانی ظاہر ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ کرونا وباء کے سلسلے میں بلوچستان ایگریکلچر کالج کے ہاسٹل کو قرنطینہ سینٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو کہ سراسر ظلم اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ادارے میں دور دراز کے طلبہ رہائش پذیر ہیں جو اچانک وباء کی وجہ سے اپنا قیمتی سامان بھی محفوظ نہیں کر سکے۔جس کی وجہ سے طلبہ میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے اور اسکی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔
آن لائن کلاسز کے خلاف پورے پاکستان میں طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ہم اپنے پلیٹ فارم پروگریسو یوتھ الائنس سے اس کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھرپور کمپئین جاری رکھنے کے ساتھ عملی جدوجہد میں بھی فرنٹ لائن پر اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔2 مئی 2020ء کو بلوچستان کے تعلیمی اداروں،جن میں بیوٹمز (BUITEMS)، بلوچستان یونیورسٹی اور سردار بہادر خان یونیورسٹی کے طلبہ نے سہولیات کے بغیر آن لائن کلاسز کو مسترد کرتے ہوئے پریس کلب کوئٹہ کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا جس میں پی وائی اے نے بھرپور شرکت کی۔ہم تمام طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کمپئین کا حصہ بنیں۔
بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز کا اجراء ناممکن ہے اور طلبہ کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو تمام تر سہولیات مفت فراہم کی جائیں اور ساتھ ہی ساتھ طلبہ اور اساتذہ کی آن لائن کلاسز کے حوالے سے ٹریننگ کو بھی یقینی بنایا جائے۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضروریات کو پورا کرے اور اگر ریاست ایسا نہیں کرتی تو اس کا واضح مطلب ہوگا کہ ریاست طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہی ہے اور اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کرنا چاہتی ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز کے اس فراڈ کی شدید مذمت کرتا ہے۔جب تک ریاست سہولیات مہیا نہیں کرتی تب تک آن لائن کلاسز کا اجراء بند کرتے ہوئے سمیسٹر بریک دیا جائے۔