بہاولپور: خواتین کے عالمی دن پر ”خواتین کی آزادی۔۔ مگر کیسے؟“ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد!

| رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

9 مارچ کے روز خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے پروگریسو یوتھ الائنس بہاولپور کے زیر اہتمام سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات اور دوسرے شعبہ کے افراد نے شرکت کی۔تقریب کے کامیاب انعقاد کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کے ممبران نے مختلف تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز میں کیمپئین کی اور رابطہ سازی کی مہم چلائی۔

مجموعی طور پر یہ پروگرام تین سیشنز پر مشتمل تھا پہلا سیشن خواتین کی آزادی کے حوالے سے بحث پر مشتمل تھا دوسرا ادبی سرگرمیوں پر مشتمل تھا اور تیسرا سوالات جوابات کا سیشن تھا۔تقریب کا باقاعدہ آغاز کاشف رضا بخاری نے نظامت کے فرائض سنبھالتے ہوئے کیا اور عرفان منصور کو مدعو کیا۔عرفان نے خواتین کے حوالے سے موجود صنفی، معاشی و سماجی جبر کی تفصیل بیان کی اور اس جبر کو حمایت مہیا کرنے والے پدرسری سماج کی تاریخی بنیادوں کا ذکر کیا جوکہ زراعت کی ایجاد کے بعد جنم لیتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یک زوجگی، وراثت اور خواتین کے ثانوی کردار بن جانے پر بھی بات کی اور یہ بتایا کہ آج خواتین کی آزادی ملکیت کے تصور کوختم کرنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔سرمایہ داری کو اکھاڑ کے ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر میں ہی مردو اور خواتیں حقیقی معنی میں آزاد ہوسکتے ہیں۔

 

اسکے بعد وکلاء برادری سے آئے ہو چوہدری غلام میراں نے بحث میں حصہ لیا۔انہوں نے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست اور معاشرے میں خواتین کے حوالے سے موجود تعصبات کا احوال بیان کیا اور اسکو تبدیل کرنے کے لیے حاضرین سے شعوری کاوشوں کا مطالبہ کیا۔ڈاکٹر یاسر ارشاد نے بھی عورت کے معاشی قتل اور اسکے حوالے سے سوشلزم کی اہمیت و ضرورت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔

اسکے بعد ادب کے حوالے سے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس میں حرا بخاری نے، پروگریسو یوتھ الائس کی کارکن فریحہ کا تحریر کردہ افسانہ پڑھا جسکے بعد کاشف بخاری اور حرا بخاری نے شعیب کیانی کی نظم”بے حیا“ کی ڈرامائی پڑھت پیش کی۔ اسکے علاوہ مبشر رحمان نے کیفی اعظمی کی نظم”عورت“ پڑھ کر سنائی۔اور اس کے بعد عرفان نے ایک سرائیکی نظم بعنوان کاروکاری پیش کی۔

تیسرا سیشن سوال و جواب پر محیط تھا جس میں صیہبا صادق نے حاضرین کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے۔صیہبا نے عورت کی آزادی کے نعرے کی تشریح بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان جیسے سماج میں خواتین کے کونسے بنیادی مسائل ہیں جن سے آزادی پانا ضروری ہے۔یورپ اور امریکہ میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم ان ترقی یافتہ سماجوں میں اگرچہ عورت کو کچھ آزادی حاصل ہے مگر یہ سماج بھی عورت کی حقیقی آزادی کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی پدرسری بنیادوں پر استحصال اور تفریق موجود ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سوشلزم وہ بنیاد مہیا کرے گا جس پر عورت کے شاندار مستقبل کے بلند عمارت استوار ہوگی اور تمام مردوں اور خواتین کوحقیقی معنوں میں آزادی حاصل ہو گی۔ عورتوں کو گھریلو مشقت سے آزادی ملے گی تو وہ سماج پیداوری عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ لیکن ایسا صرف تب ہی ممکن ہے جب استحصال پر مبنی سرما یہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا اور ایک سوشلسٹ سماج تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔

سماج آزاد۔۔۔عورت آزاد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.