|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی نے بی ایس کے تیسرے، پانچویں اور ساتویں سمیسٹرز کے لیے 15 ستمبر سے دوبارہ آن لائن کلاسز کے اجراء کا اعلان کر دیا ہے۔ صرف نئے داخلے والے طلبہ کو ہی یونیورسٹی میں باقاعدہ جا کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جامعہ زکریا میں پچھلا ایک پورا سمیسٹر آن لائن کلاسز کے ذریعے پورا کیا گیا جس میں یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کو رتی برابر بھی آن لائن کلاسز کے لیے سہولیات فراہم نہیں کر سکی۔ بلکہ یہ کلاسز طلبہ پر معاشی و ذہنی جبر بن کر برسی ہیں۔ ریاست کا طلبہ کی فکر مندی کا سارا ڈرامہ صرف فیسوں کی وصولی کے لیے رچایا گیا تھا اور واضح نظر آیا ہے کہ کس طرح طلبہ کے محفوظ مستقبل کے نام پر کرونا کے سخت ترین معاشی بحران میں بھی طلبہ کو دھمکیاں دے کر بدمعاشی سے فیسیں بٹوری گئیں ہیں اور اب کی بار جو پہلے سمیسٹر کے طلبہ کے لیے یونیورسٹی کھولی جا رہی ہے وہ بھی صرف طلبہ کو اپنے چنگل میں پھنسانا مقصود ہے کیونکہ ایسی آن لائن کلاسز سے تو بہتر ہے کہ طلبہ داخلہ ہی نہ لیں۔
کرونا وبا کے دوران تعلیمی اداروں کا بند کیا جانا یقینا ضروری عمل تھا لیکن اس دوران تعلیمی عمل کو جاری رکھنے کے لیے اعلیٰ سہولیات کے ساتھ معیاری آن لائن کلاسز کا اجراء بھی بے حد ضروری تھا، جس میں حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ طلبہ نے اپنی فیسیں ادا کیں، آن لائن کلاسز کے لیے بھی اپنے پیسے خرچ کیے اور طلبہ سے ٹیوشن فیس کے علاوہ اضافی مدوں میں جیسے ٹرانسپورٹ، بجلی، لائبریری وغیرہ کی فیس بھی بٹوری گئی جو سراسر ڈاکہ زنی تھی۔ اب انتظامیہ نے دوبارہ نہ صرف آن لائن کلاسز کے اجراء کا اعلان کیا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ شرمناک حرکت یہ کی ہے کہ سمیسٹر کے آغاز سے قبل ہی طلبہ کو فیس کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر تیس ستمبر سے قبل طلبہ نے فیس جمع نہ کروائی تو ان کے داخلے منسوخ کر دئیے جائیں گے۔ انتظامیہ کا یہ ہتک آمیز رویہ ایک بات واضح کرتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایک مافیا ہے جو صرف اور صرف تعلیم کی بیوپاری کر کے دولت بٹور رہا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ فیسیں حاصل کرنے کے لیے طلبہ کو ہراساں کر رہی ہے۔
اس سارے معاملے میں بہت اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ جامعہ زکریا میں دوبارہ آن لائن کلاسوں کے اجراء کا سبب ایک طرف یقیناً پیسے بٹورنا تو ہے ہی، وہیں طلبہ تحریک کا خوف بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے ایسا کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو انتظامیہ نے بغیر کسی سہولت فراہم کیے طلبہ سے آن لائن کلاسز کی فیسیں کھائی ہیں اور اس پورے عرصے میں طلبہ پر کارے حملے کر کے ان کا خوب استحصال بھی کیا ہے۔ طلبہ اب وہ طلبہ بن کر تعلیمی اداروں میں واپس نہیں لوٹیں گے جس طرح وہ ادارے بند ہونے پر اپنے گھروں کو لوٹے تھے، وہ حکمرانوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا اصلی اور گھناؤنا چہرہ دیکھ کر، اس سے بہت کچھ سیکھ کر آ رہے ہیں۔
طلبہ میں اس وقت شدید غم و غصہ بھر چکا ہے۔ طلبہ انتظامیہ کے اس جابرانہ رویے کے خلاف سٹیزن پورٹل وغیرہ پر شکایات کر رہے ہیں، مختلف ڈیپارٹمنٹوں کے ایچ او ڈیز کے ساتھ طلبہ کی واٹس ایپ کے گروپوں میں بھی چپقلشیں زور پکڑ رہی ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس انتظامیہ کے بغیر سہولیات فراہم کیے آن لائن کلاسز شروع کرنے پر اور فیسوں کی وصولی کے لیے طلبہ کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اپنانے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ نیز پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو یہ باور کرواتا ہے کہ اس تمام زیادتی اور فراڈ کے خلاف پورٹلوں پر عرضیاں بھیج کر نہیں بلکہ طلبہ کی جڑت اور ایکے کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اگر طلبہ کو اداروں میں نہ بلا کر طلبہ کے غصے اور طلبہ تحریک کو زائل کرنے کا سوچ رہی ہے تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ یہ طلبہ ہی ہیں جن کی فیسوں پہ تعلیمی ادارے چلتے ہیں، اگر طلبہ متحد ہو کر اس سب کے خلاف مزاحمت کریں تو اس غلیظ انتظامیہ کو اس کے تمام طلبہ دشمن فیصلے واپس لینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ نیز طلبہ یونین کی بحالی کے ذریعے مستقبل میں ایسے تمام حملوں کی بیخ کُنی بھی کی جا سکتی ہے۔