بلوچستان: ایس ایس ٹی کیلئے بی ایڈ لازمی: نوجوان آپس میں لڑیں یا مشترکہ جدوجہد کریں؟

|تحریر: خالد مندوخیل|

پاکستان میں وسائل سے بھرپور جبکہ آبادی کے لحاظ سے ایک غریب ترین صوبے بلوچستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت شدید بے روزگاری اور غربت کا سامنا کر رہی ہے اور گزشتہ 20 سے 25 سال تک اس صوبے کی عوام مختلف سیاسی پارٹیوں کو اقتدار میں آزما چکے ہیں۔ انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ تمام حکمران چاہے وہ مذہبی، سیکولر، قوم پرست یا جس بھی نام نہادمکتبہ فکر کی پارٹی (درحقیقت سب پال بنانے کیلئے آتے ہیں) سے اقتدار تک پہنچ چکے ہوں نے عوام کو لوٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لی ہے اور چند حکمرانوں کی عیاشیوں، لوٹ مار اور منافع خوری کی خاطر اس صوبے کی عوام کی اکثریت کو مسلسل غربت، بیماریوں، زلت، محرومی اور بیروزگاری کا سامنا ہے۔

ان تمام مسائل کا سب سے زیادہ شکار وہ نوجوان نسل ہے جو کہ اس ملک میں آبادی کے لحاظ سے 65 فیصد کے قریب ہے۔ تعلیمی ڈگریاں بغل میں لئے ان نوجوانوں نے جہاں ایک طرف بھاری فیسیں دے کر، اپنے گھر بار، ماں باپ، بہن بھائیوں کا اور اپنا پیٹ کاٹ کر، غربت محرومی اور اس فرسودہ طبقاتی تعلیمی نظام کا جبر برداشت کرکے ڈگریاں حاصل کیں، آج بھی ان کے سروں پر اپنے مستقبل کے حوالے سے بے روزگاری اور غربت کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔

بلوچستان کی آبادی اس وقت ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ رہی ہے لیکن لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کیلئے حکومت کے پاس ایک لمبے عرصے سے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ بے روزگاری اس انتہا تک پہنچ چکی ہے کہ بلوچستان ریلوے ڈیپارٹمنٹ میں صرف 90 اسامیوں کیلئے پچھلے سال 16 ہزار درخواستیں جمع ہوئیں۔ اسکے علاوہ پچھلی حکومت نے بلوچستان کے نوجوانوں کو کم از کم 35000 نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا اور پھر وہی ہوا جو کہ ایک معمول ہے، نہ تو نوکریوں کا کوئی پتہ چلا اور نہ ہمارے ان حکمرانوں کا۔

لیکن بے روزگاری کے مارے ان نوجوانوں کو 35000 نوکریاں دے بھی دی جائیں تو بے روزگاری کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوگا ہاں کچھ دیر کیلئے اس میں کمی ضرور آئے گی۔ کیونکہ 30000 کے قریب تو صرف بلوچستان میں ایک سال میں طلبہ گریجویشن سے فارغ ہوکر دو وقت روٹی کی خاطر اپنی محنت بیچنے کیلئے محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں اور یہ تعداد اب اور بھی بڑھ چکی ہے۔ جبکہ کچھ رپورٹس کے مطابق ان میں سے 10 فیصد کو بھی معیاری نوکری نہیں مل پاتی۔ ایسے میں کسی ایک ڈپارٹمنٹ میں 10 پوسٹوں کے اوپر 10 ہزار بندوں کا درخواستیں جمع کرنا جہاں طلبہ کیلئے ذہنی بیماری کا سبب بن جاتا ہے وہاں یہ عمل بذات خود ایک کاروبار بن چکا ہے جس میں نوجوانوں سے فوٹوسٹیٹ کرنے، فارم نکالنے، اٹیسٹ کرنے، ہر درخواست کیلئے تصویریں بنانے، سفر کرنے، ٹیسٹوں کی تیاریوں کیلئے مختلف ٹیوشن سنٹرز کا رخ کرنے، ہر ٹیسٹ کیلئے ٹیسٹنگ سروسز کی فیسیں جمع کرنے اور اسکے ساتھ مختلف طریقوں کے ذریعے طلبہ کی بے روزگاری کو بھی منافع کمانے کا ایک ذریعہ بنایا جا چکا ہے اور ہر موڑ پر انکی جیب پر کوئی نہ کوئی حملہ آور تیار بیٹھا پایا جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں موجودہ سیاسی پارٹیاں اور نام نہاد قیادتیں چاہے وہ پارلیمینٹ کے اندر ہوں یا باہر نوجوانوں کے ان حقیقی مسائل کو حل کرنا تو درکنار ان پر بات کرنے کی ہمت بھی کسی میں موجود نہیں ہے۔ انکی مخصوص لفاظی سے ہی اس بات کا نادازہ ہو جاتا ہے کہ ان میں اور نوجوانوں کی ضرورتوں میں کتنا بڑا فاصلہ موجود ہے۔یہ آج کے دور کی وہ خصوصیت ہے کہ نوجوان بھی ان بزدل اور فرسودہ لیڈروں، حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں پر یقین نہیں کرتے اور خود ہی جدوجہد کے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں اور یہ ہی وہ واحد طریقہ ہوگا جو یہاں کے نوجوانوں کو ایک حقیقی طاقت بنا ئے گا۔

پاکستان کی کل آبادی میں سے تقریبا 14 کروڑ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہر سال لاکھوں نوجوان گریجویشن کرکے فارغ ہوتے ہیں لیکن ان کیلئے اس وقت پورے ملک میں روزگار ناپید ہے۔ خاص طور پر بلوچستان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ اس لئے بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جو اس ملک اور صوبے میں نوجوانوں کی بڑی اکثریت کو درپیش ہے۔ یہ مسئلہ نہ کسی خاص شعبے کے نوجوانوں کا مسئلہ ہے، نہ کسی خاص ڈگری رکھنے والے کا، نہ کسی خاص قومیت سے تعلق رکھنے والوں کا، بلکہ یہ تمام بے روزگار نوجوانوں کا مسئلہ ہے اور ان سب کو روزگار دینا ریاست اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔

حکمران بجائے اس کے کہ نوجوانوں کو مختلف ڈگریوں اور شرائط کے نام پر آپس میں لڑائیں، ان تمام نوجوانوں کو مستقل روزگار کی ضمانت دیں۔بی پی ایس سی کی طرف سے حالیہ ایس ایس ٹی کی 2200 نوکریوں کیلئے بی ایڈ کو لازمی شرکھ رکھنے پر طلبہ میں بے چینی کی ایک لہر دوڑی ہے اور طلبہ اس وقت مختلف فورمز پر اور سوشل میڈیاکے ذریعے اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان طلبہ میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے پاس بی ایڈ کی ڈگریاں نہیں ہیں جبکہ کچھ کے پاس یہ ڈگریاں موجود ہیں لیکن بہت سے ایسے طلبہ بھی ہیں جنہوں نے پچھلے تین سال سے بی ایڈ میں فیسیں جمع کراکے داخلے تو لئے ہیں لیکن بلوچستان یونیورسٹی کی نا اہل انتظامیہ تین سالوں سے انکے امتحانات نہیں کراسکی ہے۔

احتجاج کرنے والے طلبہ کے مطابق صوبے بھر میں 10000 کے قریب نوجوانوں کے پاس بی ایڈ کی ڈگری موجود ہے جبکہ ایسے طلبہ جن کے پاس یہ ڈگری موجود نہیں ہے یا انکے امتحانات نہیں کرائے گئے ہیں انکی تعداد 45000 سے اوپر ہے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کا ایک تحفظ یہ بھی سامنے آیا کہ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اس نظام میں ایک ڈگری بھی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں جسکے اخراجات 4 سے 5 سال تک ادا کرنا خاندان کے اوپر ایک بہت بڑے بوجھ ہوتا ہے ۔ جس کیلئے خاندان کو بہت ساری ترجیحات اور ضروریات کو قربان کرنا پڑا ہے۔ 

ایسے میں اگر حکومت ہمیں مفت ڈگریاں کرواتی تو 10 ڈگریاں کرنے میں بھی طلبہ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن یہاں طلبہ میں ڈگریاں تقسیم کرنے کا اصل مقصد تعلیمی اداروں کے اخراجات پورے کرنا ہے اور منافع کمانا اور کرپشن کے ذریعے کیے گئے خساروں کو کم کرنا ہے۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بے شمار نوجوانوں کے پاس دو کے بجائے تین تین ڈگریاں ہوتی ہیں لیکن نوکری خریدنے کیلئے پیسے اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں سب سے بہتر نعرہ ’’سب کیلئے روزگار‘‘ کا نعرہ ہی ہو سکتا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس تمام نوجوانوں کے لیے روزگار کے مطالبے کی حمایت کرتی ہے لیکن یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اس معاملے میں بی ایڈ کی شرط کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمیں ان نوجوانوں کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا جن کے پاس ڈگریاں ہیں تاکہ نوجوانوں کے بیچ کسی قسم کی تقسیم نہ بن جائے جس سے حکمرانوں کو فائدہ ہو۔

روزگار سب کا حق ہے۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ 2200 اسامیوں سے 2200 نوجوان تو برسر روزگار ہو جائینگے لیکن اس صوبے کے لاکھوں نوجوانوں کے لئے روزگار کا مسئلہ ایک مسلسل جدوجہد اور تحریک سے حل ہوگا۔ بے روزگاری کے خلاف لڑنے کا واحد راستہ نوجوانوں کا آپس میں لڑنے اور محازآرائی کرنے کے بجائے ایک مشترک جدوجہد ہی ہے۔ بیروزگاری کا مسئلہ کسی ایک فرد یا چند لوگوں تک محدود مسئلہ نہیں ہے بلکہ لاکھوں نوجوانوں کا مسئلہ ہے۔

پی وائی اے ایک لمبے عرصے سے مفت تعلیم، نوجوانوں کیلئے روزگار اور طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کررہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے حکمران مسلسل تعلیمی مہنگائی اور فیسوں میں دگنا اضافہ کررہے ہیں اور نوجوانوں پر مسلسل معاشی حملے کررہے ہیں جس کے خلاف پورے پاکستان اور ہر صوبے کے اندر بے روزگای کے خلاف مضبوط تحریکیں چلانے کی ضرورت ہے۔ پی وائی اے نوجوانوں کی روزگار ، مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد میں طلبہ اور بے روزگار نوجوانوں کیساتھ فرنٹ لائن پر کھڑی ہوگی۔ 

موجودہ نسل کے پاس اپنے حقوق حاصل کرنے اور غربت اور بے روزگاری کے خلاف لڑنے کا واحد راستہ جدوجہد کا راستہ ہے۔ امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کے اندر آبادی کی اکثریت غربت اور ذلت کی چکی میں پس رہی ہے اور چند سرمایہ دار حکمران اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک مسلسل اور ناقابل مصالحت جنگ موجود ہے۔ اس جنگ میں حکمرانوں کی طرف سے رحم اور خیر کی توقع کرنے سے بڑی بے وقوفی ہو ہی نہیں سکتی۔ حقوق کی بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ اس نظام پر سوال اٹھاتے ہوئے حقوق چھیننے کی جدوجہد کو تیز کیا جائے اور اس ظلم، جبر، غربت، بے روزگاری اور ہر قسم کے استحصال کے خلاف اس طبقاتی نظام کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے اور اس کی جگہ امیر اور غریب کی تقسیم سے پاک ایک سوشلسٹ سماج کو تعمیر کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

حق مانگنا توہین، حق چھین لیا جائے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.