|تحریر: سکندر اشجعی|
کورونا وباء جہاں بنی نوع انسان کے لیے مہلک ترین مرض کی صورت میں سامنے آئی ہے وہیں مٹھی بھر ضمیر فروش، سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے لیے نئے کاروباری مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنی ہے۔
یوں تو ریاست نے ہمیشہ سے تعلیم کو کاروبار بنائے رکھنے کی پالیسی ہی جاری رکھی ہے اور نجی تعلیمی اداروں کو خوب مال بنانے کے مواقع فراہم کیے ہیں مگر کورونا وباء میں تعلیم کے بیوپاریوں کی واقعتاً چاندی ہو گئی۔ یہاں تک کہ سرکاری اداروں میں بھی اب لوٹ مار اپنی انتہاوں پر ہے۔ اس کی ایک مثال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی لوٹ مار ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے پانچ ارب روپے سالانہ بجٹ وصولنے کے باوجود بھی جنوبی پنجاب کے غریب طلبہ کا حق مارنے میں زرا دیر نہیں کی۔ کورونا وباء کے پھوٹنے سے قبل طلبہ سے ریگولر سمیسٹر فیس وصول کی جا چکی تھی۔ نیز ہاسٹل میں مقیم طلبہ سے ہاسٹل فیس بھی لے لی گئی تھی اور پھر وائرس کے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے پر بقیہ تعلیمی اداروں کی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بھی بند ہوئی اور پھر آن لائن کلاسز کے نام پہ طلبہ کے ساتھ تعلیمی بد دیانتی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
آن لائن کلاسز درحقیقت واٹس ایپ کلاسز تھیں۔ ہر کلاس کا واٹس ایپ گروپ بنا کر اس میں پورے سمیسٹر کے کورس کی پی ڈی ایف فائلز بھیج دی گئیں اور یوں انتظامیہ گویا اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئی۔ وصول کردہ فیسوں کو جائز کرنے کیلئے آن لائن امتحانات کا ڈرامہ رچایا گیا جس کیلئے ہر طالب علم کو LMS iD ایشو کی گئی اور اس آن لائن پورٹل کا انتظام کرنے والے کلرک (جو شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتے تھے اور جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ طلبہ کی آن لائن شکایات کا حل یقینی بنائیں) نے اپنی روایتی نااہلی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا جو کلرکوں کا خاصہ ہے اور طلبہ کے مسائل مزید بڑھا دیے۔ سینکڑوں طلبہ LMS iD میں تیکنیکی خرابیوں کی وجہ سے آن لائن پورٹل کا حصہ ہی نہ بن سکے اور اس مسئلے کے حل کیلئے انہیں کورونا وباء کی شدت کے دنوں میں سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کر کے یونیورسٹی آنا پڑا جب پبلک ٹرانسپورٹ مکمل بند تھی۔
اب ایک آن لائن سمیسٹر کا باقاعدہ اختتام ہو چکا ہے جس کے ناگوار تجربات کو لے کر طلبہ میں غم و غصہ پایا جارہے اور طلبہ اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں جنہیں یونیورسٹی انتظامیہ مسلسل نظرانداز کر رہی ہے۔
طلبہ کے مندرجہ ذیل مطالبات ہیں جو وہ متواتر سوشل میڈیا پہ وائس چانسلر اطہر محبوب سے طلب کر رہے ہیں:
1۔ سمیسٹر فیس کی مد میں لی گئی رقوم میں سے صرف اکیڈمک فیس وصولی کی جائے اور بقیہ حصہ طلبہ کو واپس دیا جائے۔سمیسٹر فیس میں ٹرانسپورٹ چارجز، انٹرنیٹ چارجز، بجلی چارجز وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ سہولیات آن لائن تعلیم کے دوران سٹوڈنٹس نے حاصل نہیں کیں تو یہ رقم انہیں واپس ملنی چاہئے۔
2۔ ہاسٹل فیس مکمل واپس کی جائے۔سمیسٹر کے تقریباً آغاز میں ہی یونیورسٹی بند کر دی گئی تھی لہٰذا اس رقم کی واپسی کے مطالبے میں طلبہ حق بجانب ہیں۔
3۔ سکالرشپس میں سے کٹوتی بند کی جائے اور کٹوتی کی گئی رقم بھی طلبہ کو لوٹائی جائے۔
تا دمِ تحریر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ان مطالبات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یاد رہے وزیر اعظم کے کورونا فنڈ میں یونیورسٹی کے بجٹ میں سے وائس چانسلر اطہر محبوب نے 70 لاکھ سے زائد کی خطیر رقم جمع کرائی تھی جبکہ اسی دوران طلبہ کی سکالرشپس پر ڈاکہ ڈالا گیا اور انہیں اصل رقم سے آدھی دی گئی۔
اب دوبارہ سے نئے سمیسٹر کا آغاز کیا جارہا ہے، جس میں طلبہ کی محدود تعداد کیلئے کیمپس کھولے جائیں گے جبکہ اکثریت کیلئے آن لائن کا جبر موجود رہے گا۔ اسی طرح وہ طلبہ جن کی فیزیکل کلاسیں ہوں گی ان کی رہائش کا مسئلہ تاحال موجود ہے۔ تازہ نوٹس کے مطابق اس وقت تمام ہاسٹلائز سٹوڈنٹس کی الاٹمنٹس جبری منسوخ کر دی گئی ہیں اور صرف نئے داخل ہونے والے طلباء و طالبات کیلیئے یونیورسٹی ہاسٹلز کھولے جا رہے ہیں۔ اس نوٹس کو لے کر طالب علموں میں شدید بے چینی اور عدم اعتماد پنپ رہا ہے۔ پرائیویٹ ہاسٹلز کی تلاش اور ان میں رہائش کے معاملے کو لے کر خاص کر طالبات بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہیں۔
مندرجہ بالا تمام مسائل بلاشبہ انتظامیہ کی نااہلی اور لوٹ مار کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ ان کے حل کیلئے ایک فیصد بھی عملی کام نہیں کیا گیا۔ اس تمام صورتحال میں طلبہ کا غصہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور یونیورسٹی کھلنے کے بعد طلبہ کے احتجاجوں کے امکانات بہت زیادہ موجود ہیں۔ دراصل یہی خوف ہے جس کے باعث ملک بھر کی طرح اسلامیہ یونیورسٹی میں بھی فقط آخری اور پہلے سمیسٹر کے طلبہ کو بُلایا جارہا ہے۔ جبکہ باقی طلبہ سے دوبارہ لوٹ مار کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس جامعہ اسلامیہ بہاولپور کی اس لوٹ مار کی شدید مذمت کرتا ہے نیز ہم طلبہ کو یہ باور کروا دینا چاہتے ہیں کہ مفت اور معیاری تعلیم ہمارا حق ہے، ان حقوق پر حملوں کے خلاف طلبہ کو منظم جدوجہد کرنا ہوگی۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس بات کا اعادہ کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ کورونا وباء اور اس کے بعد طلبہ پہ ہونے والے حملوں کے خلاف طلبہ کو جوڑتے ہوئے جدوجہد کی راہ اختیار کرے گا اور طلبہ کی اپنے حقوق کیلئے بننے والی ہر تحریک میں ہراوّل کے طور پر موجود رہے گا۔