الزام: ”سوشلزم غیر فطری ہے“ کا جواب

|تحریر: پارس جان|
]یہ اقتباس سہ ماہی میگزین لال سلام کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”سوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“ سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔[
یہ سوشلزم کے ناقدین کا مرغوب ترین اعتراض ہے۔ اس کے حق میں پہلی دلیل تو یہ دی جاتی ہے کہ جب سب انسان برابر ہوں گے اور تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی ریاست مہیا کرے گی تو لوگ کام ہی کیوں کریں گے؟ منافع اور ذاتی ملکیت کے محرک کے بغیر سماج چل ہی نہیں سکتا، یوں سوشلسٹ معاشرہ کام چوروں کی آماجگاہ بن جائے گا اور ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ یہاں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ انسان صرف فوری ذاتی مفاد یا بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کے خوف کی وجہ سے ہی کام کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حد تک تو یہ بات سو فیصد درست ہے مگر اسے ایک آفاقی اصول یا قانون نہیں سمجھنا چاہیے۔ قبل از سرمایہ داری بھی انسانی سماج قائم تھا اور لوگ اپنے تئیں مختلف ذمہ داریاں سر انجام دیتے تھے اوراگر سرمایہ داری نہیں رہے گی تب بھی انسان سماجی طور پر متعین کردہ فرائض نبھانے کی کوشش کریں گے۔ کام کرنے کا محرک محض لالچ یا خوف ہی نہیں ہوتا بلکہ خود انسانی سرشت تخلیقی سرگرمی کا بنیادی محرک ہے جو بنی نوعِ انسان کو دیگر انواع سے ممتاز کرتی ہے۔ سرمایہ داری کے عروج کے دور میں جب ترقی یافتہ ممالک میں ویلفیئر ریاست کی تشکیل ہوئی اور ریاست بے روزگاری الاؤنسز، لنگر خانے وغیرہ سمیت بہت سی بنیادی ضروریات فراہم کرتی تھی تب بھی لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے اپنی صلاحیت کے مطابق کچھ نہ کچھ کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ تبدیل شدہ سماج میں محرک بھی بدل جاتے ہیں مگر ہم کسی ایسے انسانی سماج کو فرض تک نہیں کر سکتے جس میں کوئی محرک ہی باقی نہ رہے۔ سوشلسٹ سماج میں اجتماعی ملکیت خود ایک بہت بڑا محرک ہو گی جو نہ صرف کام کی پیداواریت میں اضافہ کرے گی بلکہ ثقافتی میدان میں بھی معیاری تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے گی۔
جب سماج اور اس کی املاک مٹھی بھر اشرافیہ کی ملکیت نہیں ہوں گے تو وہ سب کی ملکیت ہوں گے اور سماج کے ہر شعبے کی بہبود ہر شخص کی ذاتی بہبود کی ضمانت بن جائے گی۔ سماج کی ترقی سے مراد آئندہ نسل کے لیے بہتر زندگی کی سب کو یکساں فراہمی ہو گا جس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم میں ذاتی مفاد ختم نہیں ہو گا بلکہ اس کی تشریح یکسر تبدیل ہو جائے گی۔ اس کا عملی نمونہ ہم سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کی بہترین کارکردگی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ لبرل انٹیلی جنشیہ کے خدشات کے برعکس نجی ملکیت اور منافع کے محرک کے بغیر روس کے پسماندہ سماج نے جتنی برق رفتار ترقی اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انقلاب کے بعد کے 50 سالوں میں سوویت یونین کی صنعتی آؤٹ پٹ میں 52 گنا اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیے میں امریکہ کی صنعتی آؤٹ پٹ میں 6 گنا اور برطانیہ میں 2 گنا اضافہ ہوا۔ سوویت یونین میں محنت کی پیداواریت میں 1310 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیے میں امریکہ اور برطانیہ میں یہ اضافہ بالترتیب 332 فیصد اور 73 فیصد رہا۔ سوویت یونین نے تمام سرمایہ دارانہ دنیا کی نسبت زیادہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنس دان پیدا کیے۔ ظاہر ہے کہ وہاں لوگ ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنس دان اس لیے نہیں بنتے تھے تاکہ وہ اپنی نجی املاک میں اضافہ کر سکیں بلکہ دریافت و ایجاد میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ وہ چاہتے تھے کہ سوویت یونین کا وقار دنیا بھر میں اتنا بلند کریں کہ وہ دنیا بھر کے محکوموں کے لیے مشعلِ راہ بن سکے۔ اس سے بڑا محرک شاید نسلِ انسانی نے پہلے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی سوچا تھا۔ جب سوویت افسر شاہی نے اس محرک کی مادی بنیادیں ختم کر دیں تو یہ سارا عمل بھی اپنے الٹ میں تبدیل ہو گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سائنس اور تکنیک کی ترقی کے باوجود محنت کشوں کے اوقاتِ کار کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ محنت کشوں سے 12 گھنٹوں سے بھی زائد کام لیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ محنت کش دلجمعی سے کام کریں۔ موجودہ نظام میں کام چوری کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ لوگ کام کرنا نہیں چاہتے بلکہ تقسیمِ کار کے باعث زیادہ تر لوگ وہ کام کرنے پر مجبور ہیں جو وہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ کمیونزم (سوشلزم کا اگلا مرحلہ) میں ’ہر کسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق اور ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق‘کے اصول کے تحت نظامِ تعلیم اور تقسیمِ کار کو از سرِ نو منظم کیا جائے گا اور چونکہ اشیا کی پیداوار کا مقصد منافع خوری سے بدل کر انسانوں کی ضروریات کی تکمیل ہو گا، لہٰذا تکنیکی ترقی کو بروئے کار لاتے ہوئے کام کے اوقاتِ کار کم سے کم کر دیئے جائیں گے تاکہ تمام انسان صحت مند تفریحی سرگرمیوں اور سماجی میل جول میں زیادہ سے زیادہ وقت صَرف کر سکیں۔ ایسے میں ہر شخص اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرے گا۔ معترضین سوال کرتے ہیں کہ ایسے میں گٹر کی صفائی اور سخت جسمانی مشقت جیسے کام کوئی کیوں کرنا چاہے گا۔ اول تو یہ سوال ہی انتہائی فرسودہ ہو چکا ہے، کیونکہ جس روبوٹک ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر پرولتاریہ کے انقلابی کردار پر شک کیا جاتا ہے، اسی ٹیکنالوجی کو اپنے تصرف میں لاتے ہوئے پرولتاریہ تمام غیر انسانی کام سے انسانوں کو مکمل طور پر نجات دلائے گا۔ پھر اسی ٹیکنالوجی کو مزید نکھارتے ہوئے ہر قسم کی جسمانی مشقت سے یکسر آزادی حقیقت کا روپ دھارے گی۔ یوں ذہنی اور جسمانی محنت کی مصنوعی تقسیم بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں انسان اپنے حقیقی نوعی پوٹینشل یعنی خالصتاً تخلیقی و تعمیری افعال کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر سکیں گے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو بھی مزید ترقی دے کرانسان مکمل فراغت حاصل کر کے کائنات کی تسخیر کے حقیقی سفر کا آغاز کر سکے گا۔ یوں لبرل تعصبات کے برعکس فراغت ہر شخص کا بنیادی حق ہی نہیں بلکہ نسلِ انسانی کا مقدر بن جائے گی۔
اسی دلیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ سوشلزم مسابقت یعنی مقابلے بازی کی مادی بنیادیں ختم کر دیتا ہے۔ انسان فطری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا انہیں مصنوعی طور پر مساوی کرنے کی کوشش بہت بڑی حماقت ہے۔ باہمی مسابقت نہ صرف یہ کہ فطری ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بھی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مقابلے بازی کے باعث صارفین کو سستی اور معیاری اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ نیرنگی فطرت کا حسن ہے اور یکسانیت جمود کی علامت ہے اور سوشلزم یکسانیت کو فروغ دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ درست ہے کہ سوشلزم مسابقت کی مادی بنیادیں ختم کر دیتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مادی بنیادیں ہمیشہ سے موجود تھیں؟ ہر گز نہیں اگر ہم انسانی تاریخ کا بالعموم اور قبل از تاریخ عہد کا بالخصوص علمی احاطہ کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ انسانوں کے مابین مسابقت تاریخی طور پر ایک نئی چیز ہے جس کا آغاز طبقاتی سماج سے ہوا۔ لاکھوں سال تک انسان جنگلوں میں موسم، ماحول اور اپنے سے زیادہ طاقتور جانوروں غرضیکہ فطرت کے خلاف اپنی بقا کی جدوجہد میں ایک دوسرے سے تعاون اور یگانگت کی بنیاد پر زندہ رہے۔ اسے ابتدائی اشتراکی دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں انسانوں کے مابین مسابقت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اسی باہمی انحصار اور معاونت نے ہی بنی نوعِ انسان کی بقا کی ضمانت فراہم کی ورنہ درجنوں نہیں سینکڑوں انواع فطرت کے جبر کے ہاتھوں ناپید ہو گئیں۔ اسی سے انسانی سماج کا تصور ابھرا۔ یعنی سماج سے مراد ہی وہ آبادی ہے جو روزمرہ کے معاملات میں تقسیمِ کار کے ذریعے ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہو۔ عظیم مفکر ارسطو نے اسی کارن انسان کو سماجی حیوان قرار دیا تھا گویا انسان معاشرے یعنی دوسرے لوگوں سے یگانگت اور اتحاد کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔
طبقاتی سماج کے ابتدائی مراحل میں یہ مسابقت قدرے مبہم اور فروعی نوعیت کی تھی۔ غلام داری اور جاگیر دارانہ سماج میں ریاستی نظم و نسق کی باقاعدہ تشکیل و ترویج کے باعث اگرچہ جنگیں اور تصادم نظر آتے ہیں مگر زیادہ تر یہ ریاستی سطح کے معاملات تک ہی محدود رہے۔ معاشرتی اقدار اور معاشیات میں فرد کی ہر دوسرے فرد سے مسابقت کا تصور خالصتاً سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے۔ نجی ملکیت کے تصورکی حتمی تکمیل نے اپنا اظہار آبادی کی بھاری اکثریت کو ملکیت سے محروم کر کے کیا اور جاگیر دارانہ سماج کے کسان اور دستکار جو اپنے آلاتِ پیداوار کے مالک ہوتے تھے، اب دیہی پرولتاریہ بن کر ہر قسم کی ملکیت سے محروم ہو گئے اور شہروں کی طرف نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے۔ صنعتی انقلاب نے پیداواری صلاحیت کو بے نظیر جست لگائی مگر شہروں میں موجود اس بے ملکیتی طبقے کی محنت کو زیادہ سے زیادہ نچوڑے بغیر اس پیداواری صلاحیت کو منافع خوری کے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نظام کی ترقی و ترویج کے لیے تاریخی طور پر لازم تھا کہ نہ صرف پیداکاروں بلکہ سرمایہ داروں میں بھی آپسی مسابقت کو فروغ دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل اور افرادی قوت کو سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کی وسعت کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ اس تاریخی ضرورت کو ایک نظریاتی اظہار کی ضرورت تھی اس لیے باہمی مسابقت کا یہ نظریہ لبرل معاشیات کے موجد ایڈم سمتھ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’اقوام کی دولت‘ میں متعارف کروایا۔ تب سے لے کر اب تک لبرل خواتین و حضرات اسے انسانی سماج کا جزوِ لاینفک بنا کر پیش کرتے آ رہے ہیں۔ بعد ازاں سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کے ارتقا کے مخصوص مرحلے پر اس نام نہاد ’آزاد مقابلے بازی‘ کا بھی خاتمہ ہوا اور اجارہ دارانہ کمپنیوں کی تشکیل کا آغاز ہوا۔ آج ہم اس نظام کی منطقی انتہاؤں کے عہد میں رہ رہے ہیں۔
یوں گزشتہ دو تین سو سالوں میں یہ مسابقت انسانی فطرت کا اہم خاصہ بن گئی۔ انسانی فطرت درحقیقت فطرت ہی کی طرح کوئی مستقل، اٹل، قطعی یا ناقابلِ تغیر شے نہیں ہے۔ انسان اپنی ضروریات کی تکمیل اور بہتر معیارِ زندگی کے لیے فطرت پر کام کرتے ہیں اور اپنی محنت سے نہ صرف فطرت کو تبدیل کرتے ہیں بلکہ خود بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی فطرت کا تعین ان کا ماحول اور حالات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور کے انسان ایک دوسرے سے فطری طور پر مختلف تھے اور مختلف علاقوں میں رہنے والے یعنی میدانی یا پہاڑی یا ساحلی علاقوں کے لوگوں کے اوصاف، خصائص، رہن سہن، کھانا پینا یہاں تک کہ مزاج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مسابقت کا معمول انسانی تاریخ میں زیادہ قدیم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب قدرتی آفت، جنگ یا قومی سانحے وغیرہ کی شکل میں کوئی غیر معمولی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو انسان باہمی معاونت کے بلبوتے پر اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور اہم اور قابلِ غور نقطہ یہ ہے کہ لبرل مؤرخین اور ان کا نظام درحقیقت مسابقت یا میرٹ کا محض دکھاوا ہی کرتا ہے عملاً زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی مقابلہ دکھائی نہیں دیتا۔ نظامِ تعلیم کو ہی دیکھ لیں، بحریہ یونیورسٹی یا لمز کے طلبہ کا سرکاری جامعات کا طلبہ سے مقابلہ ایسے ہی ہے جیسے سو میٹر کی دوڑ میں چند لوگ نوے میٹر آگے سے دوڑنا شروع کریں تو ظاہر ہے ان کا جیتنا یقینی ہو گا۔ اپنے اصل معنوں میں ایک طبقاتی معاشرے میں میرٹ اور مسابقت محض تجریدات ہی رہتے ہیں۔ اس طرح سوشلزم ہر انسان کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کر کے تعمیری مسابقت کا خاتمہ نہیں کرتا بلکہ اس کا محض آغاز ہی کرتا ہے۔ تعمیری مسابقت، یعنی سب لوگ فطرت پر انسانیت کی حتمی فتح کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے سے زیادہ انسانیت کی خدمت کر سکیں۔ یہ سماج کی برق رفتار ترقی کا نقطہِ آغاز ہو گا۔ فطرت پر قدرت حاصل کر کے بنی نوع انسان یکسانیت کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ذہنی اور جسمانی تقسیمِ محنت سے نجات حاصل کر کے اس مشینی یکسانیت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.