|تحریر: پارس جان|
[یہ اقتباس سہ ماہی میگزین ” لال سلام“ کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”شوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔]
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سوشلزم کا تصور کارل مارکس نے دیا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے، مارکس سے قبل سوشلزم کا تصور نہ صرف موجود تھا بلکہ مخصوص علمی و ادبی حلقوں میں خاصا مقبول بھی تھا۔ مگر اس سوشلزم کی کوئی سائنسی توضیح نہیں کی جاتی تھی، اسی لیے اسے ’خیالی سوشلزم‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ مارکس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے سوشلزم کے تصورکو سائنسی بنیادیں عطا کیں اور محض رومانوی نعرے بازی کی بجائے تاریخی لازمے کے طور پر سوشلزم کا مقدمہ پیش کیا۔ اسی لیے مارکس کو سائنسی سوشلزم کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنے جدلیاتی طریقہ کار سے تاریخ کا مطالعہ کیا اور کہا کہ انسانی سماج طبقات پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ طبقات ہی ہوتے ہیں جن کے مابین کشمکش کے باعث سماج کبھی جامد نہیں ہوتا بلکہ مسلسل ارتقا پذیر رہتا ہے اور ارتقا کے مخصوص مراحل سماجی انقلابات کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ یہ سماجی انقلابات نظام کی تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ گویا کوئی بھی نظام ازلی اور ابدی نہیں ہوتا۔ جب تک رائج الوقت نظام ذرائع پیداوار کو ترقی دے کر انسانوں کے معیارِ زندگی میں بہتری لاتا رہتاہے، وہ ترقی پسندانہ کردار ادا کرتا ہے۔ ایک وقت تک سماج یونہی آگے بڑھتا ہے لیکن پھر ذرائع پیداوار کی ترقی اور نظام کے بالائی ڈھانچے کے مابین تضادات شدت اختیار کرجاتے ہیں اور طبقاتی بغاوتوں کے ذریعے پرانے نظام کی کوکھ سے نیا نظام جنم لیتا ہے۔ قدیم دور کے ابتدائی انسانی سماج میں طبقات موجود نہیں تھے مگر پھر فطرت سے مقابلے اور بقا کی جدوجہد نے انسان کو اوزار بنانے پر مجبور کیا۔ ان اوزار کی بدولت انسان شکار اور پھر کھیتی باڑی کے قابل ہوا۔تاریخ کے مخصوص مرحلے پر پہلے طبقاتی سماجوں یعنی ایشیائی طرز پیداوار اور غلام داری کا ظہور ہوا، جو ہزار وں سال تک قائم رہے۔ پھر غلاموں کی بغاوتوں نے غلام داری نظام کا خاتمہ کیا اور جاگیردارانہ سماج کی بنیادیں رکھیں جو ایک سے ڈیڑھ ہزار سال تک قائم رہنے کے بعد کسانوں اور نومولود سرمایہ دار اور مزدور طبقات کی شورشوں کے بعد اختتام پذیر ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پیداواری قوتوں کو بے پناہ ترقی دی مگر اب اس کے داخلی تضادات نے پھر انقلابی بحرانات کی بنیادیں استوار کر دی ہیں۔ اب محنت کش طبقہ انقلابی بغاوتوں کے تسلسل کے ذریعے ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں اس نظام کو اکھاڑ پھینکے گا اور اس کے ملبے پر سوشلزم کی شاندار عمارت تعمیر کرے گا۔ یہی انقلاب کی جدلیات ہے۔
یعنی سرمایہ دارانہ نظام ازخود ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کا خاتمہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مگر سوشلزم کے زیادہ تر ناقدین کا اعتراض سوشلسٹوں کے اس تصورِ انقلاب پر ہی ہے۔ ان کے خیال میں انقلاب اس لیے ناممکن ہے کیونکہ لوگ اول تو انقلاب کرنا ہی نہیں چاہتے اور دوم یہ کہ اگر وہ چاہیں بھی تو انقلاب کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ انہیں روزمرہ کے معمولات میں اتنا پھنسا دیا گیا ہے کہ وہ نظام کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں بلکہ محض اس کا ایندھن بن کر رہ گئے ہیں۔ اگر کبھی یہ مشتعل ہوتے بھی ہیں تو ان کے مالکان ان کو تھوڑی سی ہڈی ڈالتے ہیں اور یہ پھر کتوں کی طرح دم ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ حکمران طبقے کی اطاعت میں زندگی گزاریں اور ان کے لیے نئے غلام پیدا کر کے مر جائیں۔ وہ خود اپنے اوپر ہونے والے ظلم و جبر کو فطری سمجھتے ہیں، لہٰذا اس نظام کو کیونکر بدلنے لگے؟ جیسا نظام چلتا آیا ہے، ویسا ہی چلتا رہے گا۔ حکمران طبقہ بے حد طاقتور ہے، اس کے پاس نہ صرف پولیس، فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ اور افسر شاہی کی شکل میں دیو ہیکل ریاستی مشینری ہے بلکہ میڈیا، شوبز اور جامعات وغیرہ کے ذریعے وہ لوگوں کی روح اور ضمیر پر بھی حکومت کرتا ہے۔ وہ کسی بھی خطرے کے پیشِ نظر اصلاحات کا سہارا لیتا ہے یا عوامی لیڈروں کو ہی خرید لیتا ہے اور عوام پھر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے مزید بہت سے دلائل انقلاب کو خارج از امکان قرار دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سرسری سی نظر دوڑائی جائے تو یہ دلائل عین منطقی معلوم پڑتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ خود رو طور پر سوشلزم کے ناقدین کے دماغ کی پیداوار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ سرمایہ دارانہ ریاست کے صدیوں پر محیط سرکاری پروپیگنڈے کا نتیجہ ہیں۔ وہ لوگ جن کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، سرکاری سوچ ہی ان کی سوچ بن جاتی ہے۔ درحقیقت یہ خواتین و حضرات موجودہ سماجی معمول، معاشی حرکیات، عوامی نفسیات اور محنت کش طبقے کے شعور کو جامد حالت میں دیکھتے ہیں۔ وہ انقلابات کو سماج کے روزمرہ معمول میں تلاش کرتے ہیں جبکہ انقلابات غیر معمولی حالات میں جنم لیتے ہیں اور تاریخی مستثنیات ہوتے ہیں۔ یعنی انقلابات روز روز نہیں کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں، البتہ وہ محرکات جو انقلابی حالات کو جنم دیتے ہیں، سطح کو متاثر کیے بغیر سماج کے روزمرہ کے بطن میں ہی پرورش پاتے ہیں۔سماجی معمولات میں پھلتے پھولتے ان انقلابی امکانات کو روایتی سوچ اپنے اس مخصوص طرزِ فکر یا ان فکری تعصبات و توہمات کے باعث نظر انداز کر دیتی ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام نے نصابِ تعلیم، اخلاقیات اور سماجی تقسیمِ کار کے ذریعے اس میں سرایت کیے ہوتے ہیں۔
انقلابات دانشور نہیں بلکہ محنت کش عوام برپا کرتے ہیں جن کے شعور میں حالات کی اتھل پتھل سے بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں۔ ان کے شعور کو صرف نشیب یا صرف فراز میں نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل میں ہی سمجھنا چاہیے۔ لرزہ خیز زلزلے سے چند گھڑیاں قبل تک کسی کا بھی دھیان اس ناگہانی آفت کی طرف نہیں جاتا حالانکہ سب نے ماضی میں آنے والے زلزلوں اور ان کی تباہ کاریوں کے بارے میں قصے کہانیاں سن رکھے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ماہرِ ارضیات بارہا خبردار بھی کر ے کہ زلزلہ آنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو بھی اول تو یہ تنبیہہ عام لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی اور اگر پہنچے بھی تو لوگوں کی اکثریت اسے اس لیے نظر انداز کرتی ر ہتی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں یا پھر دہائیوں سے تو یہی سنتے آ رہے ہیں، مگر ایسا ہوا تو نہیں۔ ویسے محنت کش عوام ایسی خبروں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کسی بوسیدہ عمارت کے از خودمنہدم ہونے سے دس منٹ پہلے بھی اگر اس کے مکین سے یہ بحث کی جائے کہ یہ عمارت گرنے والی ہے یا گر سکتی ہے تو وہ یہ کہے گا کہ ’اتنے سالوں سے تو گری نہیں، ہو سکتا ہے کہ مزید کئی سال نہ گرے‘۔ بحث کرنے والا ذہین و فطین آدمی عمارت کے ملبے میں دب کر مر جانے کے بعد بھی اس شخص کی جہالت کا رونا روتا رہے گا کہ اسے بہت سمجھایا مگر نہیں مانا۔ وہ یہ دیکھنے سے ہمیشہ قاصر رہے گا کہ اس مفلوک الحال شخص کے پاس اس
سانحے کے امکان کو ’رد کرنے‘ کے علاوہ اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔ فرض کر لیں کہ اگر اس شخص کو ایک نئے مکان کی چابی تھما کر کہا جاتا کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے، جتنی جلدی ہو سکے وہاں منتقل ہو جاؤ تو کیا وہ اس بوسیدہ عمارت کو چھوڑنے میں زیادہ دیر لگاتا؟ فطرتی مظاہر میں بھی مقدار کے معیار میں بدلنے سے نئی نئی شکلیں ابھرتی رہتی ہیں۔ سیاسیات میں بھی یہ اصول کارفرما ہوتا ہے۔ تاریخ کے اہم ترین لمحات میں متبادل کی موجودگی یا فقدان فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسے ہی محنت کش اپنے استحصال کو صرف اس لیے برداشت نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے فطری سمجھتے ہیں بلکہ ان کے پاس اپنی قوتِ محنت بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ مارکس نے ان کے پاؤں میں پڑی سرمائے کی ان دکھائی نہ دینے والی زنجیروں کو بخوبی بھانپ لیا تھا۔ طویل عرصے تک محنت کش ایسے ہی استحصال کا خام مال بنے رہتے ہیں اور انقلابی پروپیگنڈے کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ بہتری کی مصنوعی امید میں ان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں۔مستعدی سے کام اور اوور ٹائم کرنے کے باوجود بھی جب مسلسل بڑھتے ہوئے افراطِ زر اور بحران کے باعث محنت کشوں کا گزارہ مشکل سے ناممکن ہوتا چلا جاتا ہے تو وہ بالآخر اپنی زنجیر ہلانا شروع کر دیتے ہیں دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کی نام نہاد ترقی کے دوران بھی امارت اور غربت کی بڑھتی خلیج اور استحصال میں تیزی طبقاتی کشمکش میں شدت لا سکتی ہے اور بظاہر شرح ترقی میں ہونے والے اضافے کے باوجود انقلابی تحریکیں ابھر سکتی ہیں۔ اس کا اظہار چھوٹی چھوٹی ہڑتالوں، احتجاجوں اور فیکٹری گیٹ میٹنگز وغیرہ کی شکل میں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری صنعت اور پبلک اداروں میں اسی طرح کے واقعات رفتہ رفتہ معمول بن جاتے ہیں۔ محنت کشوں کی گفتگو اور سوچنے کا انداز تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ ناقابلِ تردید سمجھے جانے والے سماجی قوانین و اقدار اور حکومتی معاملات کے بارے میں سوالات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسان، طلبہ اور دیگر سماجی پرتیں بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوتی ہیں۔ قومی، جمہوری حقوق وغیرہ کے گرد یا مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ کے خلاف متوسط طبقے کے سیاسی تحرک میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہونے لگتا ہے۔ یہ تمام طبقات اپنے داخلی تناؤ اور باہمی تعلقات کے بدلتے ہوئے توازن کے باعث ایک دوسرے سے سیاسی توانائی کشید کرنے کے لیے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ یہ عمل بہت متلاطم اور تعطل پذیر بھی ہوتا ہے۔ ریاستی حکام اس پیش رفت کو روکنے کے لیے اصلاحات سے لے کر جبر تک ہر حربہ استعمال کرتے ہیں مگر ان کے ہر اقدام کے الٹ نتائج برآمد ہونے لگتے ہیں اور کسی بھی ایک واقعے کی بنیاد پر عوامی غم و غصہ انقلابی بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حکام جب مزید جبر کی کوشش کرتے ہیں تو ریاست اندر سے طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹ جاتی ہے۔ پولیس اور فوج کی طرف سے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ریاست کی دیو ہیکل طاقت تحلیل ہو جاتی ہے اور اقتدار ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔
انقلاب ماضی اور مستقبل کے مابین فیصلہ کن معرکے کا نام ہے۔ جس نظام میں ہم رہ رہے ہیں، یہ خود انقلابات کی وساطت سے قائم ہوا۔ لوگ سماج کی سائنس کو پڑھ اور سمجھ کر انقلاب نہیں کرتے بلکہ زندہ رہنے کے لیے انقلاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث مزدور طبقہ ہی ختم ہو رہا ہے، انکی یہ دلیل درحقیقت انقلاب کے خلاف نہیں انقلاب کے حق میں جاتی ہے کیونکہ مسلسل پھیلتی ہوئی بیروزگاری کے باعث ان اربوں محنت کشوں کے پاس مزاحمت کے علاوہ کچھ بچتا ہی نہیں۔ نظام میں اصلاحات کی ناپید ہوتی ہوئی گنجائش بظاہر ناممکن نظر آنے والے انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جیسا کہ ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ہم نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں دنیا بھر میں بے شمار انقلابی واقعات دیکھے ہیں بالخصوص مصر، سوڈان، ایران اور سری لنکا کے واقعات توجہ کے مستحق ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ انقلابات کو براہِ راست دیکھ کر بھی ان کے وجود کے امکان کے ہی انکاری ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان تمام انقلابات کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام بہرحال موجود ہے اور لوگ مایوسی اور پسپائی کا شکار ہیں۔ ان تمام ممالک میں سوشلسٹ نظریاتی طور پر تیار اور اتنی تعداد میں موجود نہیں تھے کہ وہ ہوا میں معلق اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لیتے۔ لیکن اس موضوعی کمزوری کے باعث معروضی حقائق کو تو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ کسی نقص یا کوتاہی کے باعث ہونے والے اسقاطِ حمل کی صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ زچگی ہی نہیں ہوئی تھی تو کیا حقیقت تبدیل ہو جاتی ہے؟ عوام جب اپنی تقدیر بدلنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، وہی انقلاب ہوتا ہے۔ کیا ایران اور سوڈان میں عوام نے ہر مقدس شے کوپاؤں تلے نہیں روند ڈالا تھا؟ کیا ریاست نام کی کوئی چیز سری لنکا میں کہیں دکھائی دے رہی تھی؟ آئندہ برسوں اور دہائیوں میں ہم اس طرح کے مزید واقعات دیکھیں گے، پسپائیوں اور ناکامیوں کے باوجود یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سرمایہ داری کو اکھاڑ کر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والی کوئی پارٹی سامنے نہیں آتی۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام کا سوشلزم کے علاوہ کوئی متبادل ہوتا تو مذکورہ بالا انقلابات میں ضرور نمودار ہوتا۔ ایسی صورتوں میں جمہوری یا غیر جمہوری عبوری سیاسی تشکیلات بالآخر پھر سرمایہ دارانہ معمول کے احیا پر ہی منتج ہوتی رہیں گی۔ گویا ہمارے عہد میں انقلاب یا تو سوشلسٹ ہو گا یا پھر ردِ انقلاب اس کا مقدر ہے۔ انقلاب کی ناکامی سے جہاں وقتی طور پر شعور پھر نشیب زدہ ہو گا جیسے حالیہ انقلابات میں ہوا، وہیں نظام کا بحران نئے فراز کے بیج بھی بو رہا ہے اور متبادل کی ضرورت مزید شدت سے ابھر رہی ہے۔ شعور عموماً اتنا قدامت پسند ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ہی تبدیل کیے گئے حالات کو بھی بڑی مشکل سے قبول کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی واقعات میں سرگرم نوجوانوں کا بھی خود کو ’غیر سیاسی‘ قرار دینا سٹیٹس کو سے نفرت ہی کی ایک شکل ضرور تھی مگر ایک نئے سیاسی انقلاب کی تمہید بھی تھی۔ اگر پسپائیاں عوام کی کسی پرت کو واپس گوشہ نشینی میں جانے پر مجبور کر بھی دیں تو سماجی اتھل پتھل نئی اور تازہ دم پرتوں کو گریبان سے پکڑ کر میدانِ کار زار میں لے آئے گی۔ یہی ہمارے عہد کا کردار ہے۔