لاہور: ’مارکسزم اور ادب‘‘ پر ایک شاندار نشست کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

جمعرات 25 جنوری کو الحمرا ہال( جو کہ لاہور کا ایک معروف ثقافتی مرکز ہے) میں پروگریسو یوتھ الائنس(PYA)کی جانب سے ’’مارکسزم اور ادب‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ لیکچر کے مقرر برطانوی مارکسسٹ کامریڈ ایلن وڈز تھے۔

150 سے زیادہ طلبہ، نوجوان لیکچررار، شاعروں، افسانہ نویسوں اور ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد نے شرکت کی۔ ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بہت سے سامعین نے جگہ کی کمی کی وجہ سے سیڑھیوں پر بیٹھ کے جب کے کچھ نے کھڑے ہوکر لیکچر سنا، جبکہ بہت سے خواہش مند کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہ ملنے کی وجہ سے لیکچر سننے سے محروم رہے۔ کچھ لوگ طویل فاصلہ طے کرکے لیکچر سننے آئے۔ گوجرانوالہ سے 10 سے زائد نوجوان لیکچرار اور سکول اساتذہ پر مشتمل وفد 60 کلومیٹر سے زیادہ کی مسافت طے کرکے لیکچر میں شمولیت کے لئے پہنچا۔

تقریب کی صدارت پروگریسو یوتھ الائنس کے نیشنل آرگنائزر زین العابدین نے کی، جنھوں نے کامریڈ ایلن وڈز کی ادب و فن کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور سیاست پر تحریروں کو بیان کرتے ہوئے سامعین سے ایلن وڈز کا تعارف کروایا۔

پروگرام کے آغاز پر پارس جان، عمران ہاشمی اور علی شاذف باقری کی جانب سے انقلابی شاعری پیش کی گئی۔

ایلن وڈز ’مارکسزم اور ادب‘ پر بات کرتے ہوئے

ایلن وڈز نے گفتگو کا آغاز اس خطے کی انقلابی شاعری اور ادب پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض اور ناظم حکمت جیسے شعراء نے اپنے اپنے ملکوں میں ہونے والی طبقاتی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ مغرب میں آج بہت کم لوگ اس خطے کے ادب کے بے مثال خزانوں کے بارے میں جانتے ہیں اور ماضی میں اپنے ملکوں میں انقلابی سرکشیوں میں شاعری کے اہم کردار کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلابی جدوجہد کیلئے شاعری ایک اہم ہتھیار ہے اور فیض احمد فیض جیسے شعراء نے اس ہتھیار کا بہت مؤثر انداز میں استعمال کیا۔ آج کے پاکستان کے انقلابی شعراء فیض کے شاگرد ہیں۔ انھوں نے برصغیر کے ادب کی درخشاں تاریخ پر بھی تبصرہ کیا، جس کا آغاز ہمیں مہا بھارت جیسی رزمیہ داستانوں میں ملتا ہے۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ان فن پاروں کو صرف انگریزی میں ہی پڑھ سکے۔

’’ترجمے کے ذریعے شاعری کو ایک زبان سے دوسری زبان میں مناسب انداز سے منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمہ کرتے وقت یا تو آپ لغوی ترجمہ کریں گے جس سے شعریت گم ہو جاتی ہے یا پھر آپ کو اصلی کام کو دوبارہ تخلیق کرنا ہو گا جو کہ بالکل مختلف کام ہوگا۔ چونکہ میں بہت سی اہم یورپی زبانیں پڑھ سکتا ہوں لہٰذا میں آج کی اپنی گفتگو کو یورپی ادب تک محدود رکھوں گا، اتنے قلیل وقت میں اس کا احاطہ کرنا بذات خود ایک مشکل کام ہے۔‘‘

ایلن نے ماضی بعید سے ادب کی تاریخ بیان کرنے سے شروع کیا، جب ابھی انسان نے لکھنا بھی نہ سیکھا تھا۔ ابتدائی نوعیت کی شاعری جسے ہم جانتے ہیں وہ زبانی پڑھ کر یا گا کرسنائی جاتی تھی جیسے یونان میں ہومر کی رزمیہ شاعری۔ یہ زبانی شاعری وہ ذریعہ تھی جس سے روایات، مذہبی عقائد، قانون اور رسوم و رواج ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے تھے۔ وقت کی قلت کی وجہ سے تیزی سے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے ایلن نے بیان کیا کہ کس طرح غلام دارنہ سماج کے زوال اور انہدام نے انسانی ثقافت کو تباہ کیا، جس کا احیاء قرون وسطیٰ میں شہری آبادیوں خاص کر ہالینڈ اور اٹلی کی شہری آبادیوں میں نئی بورژوا ثقافت کے ظہور سے ہوا۔ یہ نشاۃ ثانیہ کی بنیاد تھی جس نے ہالینڈ اور انگلینڈ کے بورژوا انقلابات کی راہ ہموار کی۔

ایلن نے عظیم انگریزی شاعر، Paradise Lost کے مصنف جان ملٹن کے انقلابی کردار کا بھی ذکر کیا ، جس نے ایروپجیٹیکا (Aeropagitica) جیسے متعدد انقلابی پمفلٹ بھی تحریر کئے جو کہ آزادئ اظہار رائے اور پریس کی آزادی کا ایک پرجوش دفاع ہے۔

ایلن نے فرانسیسی کلاسیکی ادب اور مطلق العنان حکومت کے باہمی رشتے کی بھی وضاحت کی جس کے 93-1789ء کے انقلابِ فرانس نے پرخطے اڑا دئیے۔ اس(فرانسیسی انقلاب) نے انیسویں صدی میں ادب اور فن کی نئے خطوط پر آبیاری کی سماجی بنیادیں فراہم کی اور ادبی حقیقت نگاری جیسے نئے ادبی رجحان کی راہ ہموار کی۔ ایلن نے بتایا کہ کارل مارکس کے پسندیدہ لکھاریوں میں فرانسیسی ناول نگار بالزاک بھی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ انقلاب کے بعد کے فرانسیسی سماج کو کسی تاریخ کی کتاب کی نسبت ان ناولوں کے ذریعے زیادہ بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا تھا۔ ایلن کا کہنا تھا کہ ’’سیاسی طور پر دیکھا جائے تو بالزک ایک قدامت پسند تھا۔ لیکن اس کے ناول فرانس کے بورژوا سماج کے آئینہ دار ہیں جو بے رحمی سے اس کی برائیوں کو ننگا کرتے ہیں۔‘‘

آخر میں کامریڈ ایلن نے ان دیوہیکل سماجی اور ثقافتی آزادیوں کا ذکر کیا جو کہ روس میں اکتوبر انقلاب کے نتیجے میں حاصل ہوئیں۔ انہوں نے بالشویک شاعر مایاکو وسکی کے فن پاروں کو اس کی ایک درخشاں مثال کے طور پر پیش کیا۔ ’’بلاشبہ پروپیگنڈا کبھی بھی عظیم فن میں شمار نہیں ہو سکتا۔ حقیقی فن لازماً شاعر یا ادیب کے اندرونی احساسات کی ترجمانی کرے گا۔ لیکن مایاکو وسکی جیسے عظیم شاعر کی بابت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی شاعری میں اس کے انقلابی خیالات و ایقان کی واضح جھلک نظر آتی ہے‘‘۔ پھر ایلن نے مایاکو وسکی کی نظم ’Our March‘ روسی اور انگریزی زبان میں سنائی جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس عظیم شاعر نے کس قدر گہرے اثرات مرتب کیے۔

’’اکتوبر انقلاب کے بعد کے سال ثقافتی میدان میں تجربات کے سال تھے جس دوران مختلف مکتبہ ہائے فکر آزادانہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے نظر آئے۔ لیکن سٹالنسٹ ردِ انقلاب نے ادب اور فن کی اس افزائش کا گلا گھونٹ دیا‘‘ ایلن نے کہا۔

اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے ایلن نے اس بات پر زور دیا کہ فن اور ادب تمام تر بیرونی رکاوٹوں سے آزاد ہونا چاہیے۔ فنکار اور شاعر کا کام ریاست، مذہب، سیاسی پارٹیوں اور سرمائے کی آمریت کے تسلط سے آزاد ہونا چاہیے۔ ’’سرمایہ داری اپنی سرشت میں فن اور ثقافت کی دشمن ہے‘‘ ایلن نے کہا۔ ’’کسی نے انگریز شاعر رابرٹ گریوز کو کہا: ’شاعری میں تو کوئی پیسہ نہیں ہے‘۔ جس پر رابرٹ گریوز نے جواب دیا: نہیں، پیسے میں بھی تو کوئی شاعری نہیں ہے۔‘‘

حقیقی فنکارانہ آزادی ایک سماجی اور ثقافتی انقلاب سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی سماج میں چھپے ہوئے عظیم ثقافتی پوٹینشل کو ابھار کر باہر لا سکتا ہے۔ ایلن نے ہال میں موجود لکھاریوں، صحافیوں، شاعروں اور دانشوروں سے پر زور اپیل کی کہ موجودہ کرپٹ اور بوسیدہ سرمایہ درانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے محنت کش طبقے کی جدوجہد کا حصہ بنیں اور نئے سماج کی تخلیق کیلئے حالات تیار کریں جو تہذیب اور ثقافت کو ان بلندیوں تک لے جائیں گی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملے گی۔

اس شاندار اور پرمغز گفتگو، جس کی بازگشت پاکستان کے ادبی حلقوں میں پہلے کبھی نہ سنی گئی تھی، کا حاضرین نے کھلی بانہوں کے ساتھ استقبال کیا۔
اس کے بعد سوال و جواب کا مختصر سا سیشن ہوا، جس میں کامریڈ ایلن نے سوالوں کے جواب دیے اور تمام شرکاء کو دعوت دی کے جو کوئی بھی ان نظریات سے اتفاق کرتا ہے وہ آئی ایم ٹی کے پاکستانی سیکشن ’لال سلام‘ کا حصہ بنے۔

ایک سو سے زائد افراد نے کامریڈز کی طرف سے تیار کیے گئے اس فارم پر دستخط کیے جس میں آئی ایم ٹی کی سرگرمیوں کی فہرست تھی اور خوبصوتی سے سجائے گئے کتابوں کے سٹال سے بڑے پیمانے پر مارکسی کتب اور ادب کی دوسری کتابیں فروخت ہوئیں۔ اس پروگرام کے پاکستان کے ادبی حلقوں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس تقریب کو بڑے پیمانے پر فیس بک اور سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے جہاں اس نے مارکسزم اور ادب کے موضوع پر ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ بلاشبہ یہ آئی ایم ٹی کے پاکستانی سیکشن ’لال سلام‘ کی کامیابیوں کے باب میں ایک اور اضافہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.