|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،کشمیر |
جب کوئی نظام ذرائع پیداوار کو ترقی دینے میں ناکام ہو جاتا ہے تو سائنس سے لے کر ادب تک، سماجی اخلاقیات غرض یہ کہ اس سماج کا ہر شعبہ گراوٹ کا شکار ہوتا ہے اور یہی کچھ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔یہ نظام نہ صرف اکثریت کو بنیادی انسانی ضروریات(تعلیم، علاج، روزگار) دینے سے قاصر ہو چکا ہے بلکہ نام نہاد جدید ترین سرمایہ دارانہ ممالک سے لے کر پسماندہ ترین ممالک تک خوف ناک سماجی شکلیں اختیار کر رہا ہے جس میں ریپ، قتل، جنسی ہراسانی، آنر کلنگ، چوری چکاری جیسے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں اس قسم کے واقعات نہ رونما ہوں۔خواتین اور بچوں کے حوالے سے پاکستان نا قابلِ رہائش ملک بنتا جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت سے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جس میں لاہور، مینار پاکستان میں 400 لوگوں نے ایک اکیلی خاتون کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور دن دہاڑے اس کے کپڑے اتار کر ننگا کیا گیا۔
ابھی یہ واقعہ ہوا ہی تھا کہ نام نہاد آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل عباسپور میں قتل کی لرزہ خیز واردات پیش آئی۔ 12 سال کی بچی کو قتل کر کے لاش گٹر میں پھینک دی گئی۔ بچی 16 اگست سے گھر سے لاپتہ تھی۔ جماعت ششم کی طالبہ حلیمہ جس کی عمر 12 سال کے قریب تھی، اسے اپنے ہی قریبی رشتہ دار نے اغوا کیا اور اس کو زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔ پولیس کے مطابق طالبہ کے جسم پہ تشدد کے نشان موجود تھے۔ مزید پولیس کا کہنا ہے کہ طالبہ کے ساتھ بار بار ریپ کیا گیا اور جب وہ حاملہ ہو گئی تو ملزم نے اس کو قتل کر کے اس کی لاش گھر کے قریب گٹر میں پھینک دی۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد گھر بھیج دیا گیا اور ملزم کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ 27 سال کا نوجوان جو طالبہ کا قریبی رشتے دار بھی تھا، اس نے جرم قبول کر لیا۔ ملزم تا حال پولیس کی ہراست میں ہی ہے۔ لیکن کیا یہ آزاد کشمیر میں ہونے والا پہلا واقعہ ہے؟ اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ضلع پونچھ کی چھوٹی سی تحصیل عباسپور کے اندر یہ واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع حویلی میں بھی دہرے قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی تھی جہاں پہ ماں اور بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کر کے ان کو قتل کر کے لاشیں لٹکا دی گئیں تھیں۔ علاوہ ازیں آزاد کشمیر کی ہر تحصیل اور ضلع کے اندر ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ جن میں سے ایک آدھ واقعہ ہی رپورٹ ہوتا ہے۔
ان تمام واقعات میں ہمیشہ کمزور کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور انصاف اور قانون کے دروازے تو ویسے بھی کمزور یا محنت کش طبقے کے لیے بند ہی ہیں۔ اوپر سے ظلم یہ ہے کہ ان واقعات کا ذمہ دار خود خواتین کے لباس کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بنیادی طور پر جس سماجی نظام کے تحت ہم زندگیاں گزار رہے وہ ناقابل اصلاح ہو چکا ہے جسے بنیادوں سے اکھاڑے بغیر ان مسائل کا مستقل حل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی واقعے کے ملزم کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے۔ پروگریسویوتھ الائنس عباسپور میں ہونے والے اس واقعے کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ فی الفور ذمہ داران کو سخت ترین سزا دی جائے۔