جینی مارکس بنام فرینکفرٹ ایم مائن میں مقیم جوزف ویڈمیئر
یہ خط کارل مارکس کی بیوی جینی نے 1850ء میں لکھا تھا ۔ اس وقت کارل مارکس اپنی بیوی بچوں کے ساتھ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا ۔ اس خط میں ان مشکل ترین حالات کی جھلک نظر آتی ہے جن سے مارکس کو گزرنا پڑا اور تقریباََ باقی کی تمام زندگی وہ ایسے ہی حالات کا سامنا کرتا رہا ۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ انقلابی نظریات اور جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی ان مشکلات کو اس نے اپنے سفر میں رکاوٹ بننے دیا ۔ بلکہ یہ حالت اسے اپنے نظریات کی درستگی پراور بھی زیادہ یقین اور اعتماد فراہم کرتے رہے ۔
دوسری جانب جینی کی سچی محبت اور قربانی بھی نظر آتی ہے جو شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجودمارکس کی محبت میں انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارتی رہی ۔ یہ لازوال محبت آج بھی انقلابیوں کے لیے مشعل راہ ہے اور ہ میں مشکل ترین حالات میں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے حوصلہ اور جرات فراہم کرتی ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
20 مئی، 1850 ء، لندن
عزیز مسٹر ویڈمیئر
آپ اور آپ کی عزیز اہلیہ کی جانب سے مجھے دیے جانے والے مہربان اور گرم جوش خیر مقدم کو تقریباً ایک برس بیت چکا ہے۔ آپ کے گھر میں مجھے بہت خوشی اور راحت ملی، اور اس تمام عرصے کے دوران میں نے آپ کو کوئی پیغام نہیں بھیجا؛ آپ کی اہلیہ کے مہربان مراسلوں کے جواب میں میں خاموش رہی، حتیٰ کہ ہمیں آپ کے بچے کی پیدائش کی خبر ملنے پر بھی میں چپ رہی۔ اکثر میں خود اس خاموشی کا جبر محسوس کرتی ہوں لیکن زیادہ تر وقت میں لکھنے کے قابل نہیں تھی اور آج بھی مجھے دشواری، بہت زیادہ دشواری محسوس ہو رہی ہے۔
لیکن حالات نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ میں آپ کی منت کرتی ہوں کہ ہمیں جلد از جلد ری ویو کی مد میں آنے والے پیسے بھیج دیں۔ کئی برسوں کے دوران ہمیں جو کچھ چھوڑنا پڑا اور جن حالات کا سامنا کرنا پڑا، مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی ہم پر اس بارے میں شکایت کرنے کا الزام نہیں لگا سکتا۔ لوگوں کو کبھی نہیں یا شائد ہی کبھی ہمارے نجی معاملات میں الجھایا گیا ہو، کیونکہ میرے شوہر ان معاملات کے متعلق بہت حساس ہیں اور عظیم سرکاری آدمیوں کی طرح جمہوری کشکول اٹھاکر اپنی تحقیر کروانے کی بجائے بہت جلد اپنا سب کچھ گنوا دینے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن وہ اپنے دوستوں، خصوصاً وہ جو کلون میں موجود ہیں اور ان کے جریدے ری ویو (Revue) کے لیے رہے ہیں، سے امید وابستہ کرسکتے ہیں۔سب سے بڑھ کر مارکس سے ان لوگو ں سے امید وابستہ کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے جو یہ جانتے تھے کہ انہوں نے اخباررائی نائش زیٹنگ (Rh. Ztg) کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔ لیکن اس کے بر عکس، یہ کاروبار مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ وہ بے پرواہی ہے جس سے اسے چلایا گیا۔ یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ سب سے زیادہ نقصان کس نے پہنچایا، کتب فروشوں نے، یا پھر ساتھیوں اور کلون میں کاروبار کو چلانے والوں نے، یا پھر جمہوریت پسندوں کے عمومی رویے نے۔
یہاں میرے شوہر بورژوا زندگی کی بے معنی پریشانیوں کے بوجھ تلے مکمل طور پر کچلے جا چکے ہیں اور یہ اتنی تکلیف دہ شکل اختیار کر چکی ہیں کہ ان کی تمام تر توانائی، تمام تر سکون، خوش گفتاری اور خود اعتمادی اس روز مرہ کی لمحہ بہ لمحہ جدوجہد میں خرچ ہو چکے ہیں۔ آپ، مسٹر ویڈ میئر، اس پرچے کی خاطر میرے شوہر کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے ہزاروں کے اخراجات کیے، پرچے کی املاک کی ذمہ داری لی، جس کے لیے انہیں چند جمہوریت پسند معززین نے قائل کیا تھا جنہیں بصورتِ دیگر ان قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری لینا پڑتی، اور ایک ایسے وقت میں جب پرچے کے جاری رہنے کے امکانات انتہائی مسدود تھے۔پرچے کے سیاسی وقار اور اپنے ساتھیوں کی بورژوا عزت کو بچانے کی خاطر، انہوں نے ہر بوجھ کو کاندھا دیا، اپنی مشینری سے محروم ہو گئے، اپنی تمام آمدن گنوا دی، اور یہاں تک کہ اپنی واپسی پر انہیں 300 رائشسٹالر کا قرض لینا پڑا تا کہ نئی جگہ کا کرایا، ایڈیٹروں کی تنخواہ کے بقایاجات وغیرہ ادا کیے جا سکیں۔ اور انہیں جبری طور پر باہر نکال دیا گیا۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ، ہم نے اس میں سے اپنے لیے کچھ نہیں بچایا۔ میں فرینکفرٹ اپنی بچی کچی چاندی رہن رکھنے کے لیے آئی تھی، میں نے اپنا فرنیچر کلون میں بیچ دیا تھا کیونکہ مجھے خطرہ تھا کہ میری چادریں اور باقی سب کچھ قرق کر لیا جائے گا۔ ردِ انقلاب کا نا خوشگوار دور آتے ہی میرے شوہر پیرس چلے گئے جہاں میں اپنے تین بچوں سمیت ان کے پیچھے چلی آئی۔ ابھی وہ پیرس بسے بھی نہیں تھے کہ انہیں بے دخل کر دیا گیا اور مجھے اور میرے بچوں کو بھی رہنے کی اجازت نہیں دی گئی۔پھر میں سمندر پار ان کے پیچھے چلی آئی۔ ایک ماہ بعد ہمارے چوتھے بچے کی پیدائش ہوئی۔ آپ لندن اور وہاں کے حالات کو سمجھیں تو پھر آپ کو یہ احساس ہو گا کہ تین بچوں اور چوتھے کی پیدائش کا کیا مطلب ہے۔ ہمیں ہر ماہ صرف کرائے کی مد میں چالیس ٹیلر (چاندی کے سکے) ادا کرنے پڑتے۔ یہ سب ہم اپنے اثاثے فروخت کر کے ادا کر رہے تھے۔ لیکن ریویو کے جاری ہوتے ہی ہمارے قلیل وسائل ختم ہو گئے۔ معاہدوں سے قطع نظر، پیسے آنا بند ہو ئے، یا پھر کبھی کبھار معمولی رقم آ جاتی، اس طرح یہاں پر ہمیں انتہائی خوفناک صورتحال کا سامنا تھا۔
میں ہماری زندگی کے صرف ایک دن کا حال بیان کرتی ہوں، جس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ چند ہی پناہ گزین اس طرح کے تجربات سے گزرتے ہوں گے۔ کیونکہ یہاں دودھ پلانے والی دایاں بہت مہنگی ہیں، میں نے اپنے بچے کو خود دودھ پلانے کا فیصلہ کیا، اگرچہ میری چھاتی اور کمر میں شدید درد تھا۔لیکن بیچارہ ننھا فرشتہ دودھ کے ساتھ کئی پریشانیاں اور ان کہی تکالیف بھی حاصل کر رہا تھا کہ وہ دن رات بیمار اور شدید درد میں مبتلا رہتا۔ اس دنیا میں آنے کے بعد سے وہ ایک مرتبہ بھی پوری طرح نہیں سویا اور زیاد ہ سے زیادہ دو یا تین گھنٹے سویا ہے۔ چند دنوں سے اسے شدید جھٹکے لگ رہے ہیں اور بچہ مسلسل موت اور مصیبت زدہ زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ تکلیف میں وہ اتنے زور سے چوستا کہ میری چھاتی پر سوجن ہو جاتی اور زخم بن جاتے؛ اکثر اس کے ننھے کانپتے ہوئے منہ میں خون جانے لگتا ہے۔ ایک دن میں بیٹھی تھی کہ اچانک ہمارے مکان کی مالکن آ گئی، جسے ہم 250 ریخسٹالر سے زیادہ رقم ادا کر چکے تھے، اور اس یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ہم مزید کرایہ اس کی بجائے اس مالک مکان کو ادا کریں گے جس نے پہلے اس عورت کی جائیداد قرق کر لی تھی؛ اب وہ معاہدے کے وجود سے ہی انکار کر رہی تھی، اور ہم سے مزید 5 پاؤنڈ کا مطالبہ کر رہی تھی۔ کیونکہ ہمارے پاس یہ فوری طور پر موجود نہیں تھے (ناٹ کا خط بہت دیر سے وصول ہوا)، دو بیلف (قرق کرنے والے سرکاری افسر۔ مترجم) ہمارے گھر آئے۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اسے قرق کر لیا۔ اس میں بستر، چادریں، کپڑے، ہر چیز حتیٰ کے میرے نومولود بچے کا پنگھوڑا اور لڑکیوں کے پسندیدہ کھلونے بھی شامل تھے جو یہ دیکھ کر رونے لگیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ دو گھنٹوں میں سب کچھ لے جائیں گے اور میں اپنے ٹھٹھرتے ہوئے بچے اور زخمی چھاتی کے ساتھ ننگے فرش پر ہوں گی۔ہمارا دوست شرمین مدد کی تلاش میں فوراً شہر کے لیے روانہ ہوا۔ وہ ایک گھوڑا گاڑی میں سوار ہوا جس کے گھوڑے بدک گئے اور باہر چھلانگ لگانا پڑی اور وہ بہتے ہوئے خون کے ساتھ اس گھر میں لوٹ آیا جہاں میں اپنے کانپتے ہوئے بچوں کے ہمراہ غم زدہ بیٹھی تھی۔
اگلے روز ہمیں مکان خالی کرنا پڑا۔اس دن موسم سرد، نم اور مطلع ابر آلود تھا۔ میرے شوہر رہائش کی تلاش کر رہے تھے لیکن چار بچوں کا سن کر کوئی ہمیں رکھنے کو تیار نہیں تھا۔ بالآخر ایک دوست نے ہماری مدد کی۔ ہم نے پیسے ادا کیے اور میں نے جلدی سے تمام بستر بیچ دیے تا کہ دوا فروش، بیکر، قصاب اور دودھ والے کا حساب چکایا جا سکے جو بیلف کا معاملہ سنتے ہی اپنے بِل لیے آ گئے تھے۔جو بستر میں نے بیچے انہیں باہر سڑک کے کنارے لا کر رکھا گیا اور پھر ایک ریڑھی پر لاد دیا گیا، پھر کیا ہوا؟ سورج ڈھلے کافی دیر ہو چکی تھی۔ انگریز قانون میں اس کی ممانعت ہے، مالک مکان جارحانہ انداز میں کانسٹیبلوں کے ہمراہ ہماری جانب بڑھا اور کہا کہ ہم اس کا بھی کچھ سامان لے کر ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ پانچ منٹ کے اندر تین سے چار سو لوگوں کاایک ہجوم ہمارے دروازے کے باہر جمع تھا جس میں چلسی کے سب لچے لفنگے شامل تھے۔ بستر دوبارہ اندر رکھ دئے گئے، انہیں کل صبح سورج طلوع ہونے تک خریدار کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح اپنا سب کچھ بیچ کر ہم نے پائی پائی ادا کی اور میں اپنے چھوٹے بچوں سمیت 1 لسٹر سٹریٹ، لسٹر اسکوائر میں ایک جرمن ہوٹل کے دو کمروں میں مقیم ہو گئی جہاں ہفتے کے پانچ سے دس پاؤنڈ کے عوض ہم سے انسانی سلوک روا رکھا گیا۔
عزیز دوست، میں یہاں ہماری زندگی کے صرف ایک دن کی اتنی تفصیل میں جا نے پر معذرت چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کی ایسا کرنا ناشائستگی ہے، لیکن آج شام میرے دل کے جذبات میرے کانپتے ہوئے ہاتھوں تک آن پہنچے ہیں اور ایک مرتبہ مجھے یہ جذبات ہمارے سب سے پرانے، بہترین اور وفا شعار دوست تک پہنچانے ہیں۔ یہ مت سمجھیں کہ میں ان چھوٹے مصائب کے آگے جھک گئی ہوں، کیونکہ میں بخوبی جانتی ہوں کہ ہماری جدوجہد الگ تھلگ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، میں انتہائی خوش اور خوش نصیب چند لوگوں میں سے ایک ہوں کیونکہ میری زندگی کا مرکز میرے محبوب شوہر اب بھی میرے ساتھ ہیں۔لیکن میری روح کو پاش پاش اور میرے دل کو خون کے آنسو رلانے والی حقیقت یہ ہے کہ میرے شوہر کو اتنے کمینے پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان کو زیادہ کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے ہمیشہ خوشی سے بہت سے لوگوں کی مدد کی ہے لیکن آج خود مدد سے محروم ہیں۔ لیکن، عزیز مسٹر ویڈمیئر، جیسا کہ میں نے کہا ہے، یہ نہ سمجھئے گا کہ ہم کسی سے بھی کوئی مطالبہ کر رہے ہیں۔اگر کوئی ہمیں پیسے دیتا ہے تو میرے شوہر اب بھی اس حیثیت میں ہیں کہ اسے اپنے اثاثہ جات میں سے لوٹا سکیں۔ شائد میرے شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ ان لوگوں سے پوچھیں جنہیں انہوں نے ایک نظریہ دیا ہے، بہت سو ں کو فائدے پہنچائے، اور اگر وہ ان کے ری ویو کی زیادہ فکر کرتے اور اس کی جانب زیادہ کاروباری لگن کا مظاہرہ کرتے تو یہ بہت مددگار ہوتا۔ جو تھوڑا بہت میں اپنی کوشش سے بچا پائی، جس پر مجھے فخر ہے، وہ ان کا حق تھا۔ اور مجھے معلوم ہے کہ میرے شوہر کی محنت کی کمائی کے 10 چاندی کے گروشن (سکے) ایسے نہیں جن کے وہ مکمل طور پر حقدار نہ ہوں۔اورمیں نہیں سمجھتی کہ اس کے لیے کبھی کسی کا حق مارا گیا ہو۔مجھے اس سب سے بہت دکھ پہنچتا ہے لیکن میرے شوہر کی سوچ مختلف ہے۔انتہائی خوفناک لمحات میں بھی، وہ کبھی مستقبل سے نا امید نہیں ہوئے اور نہ ہی اعلیٰ حسِ مزاح میں ذرا بھی کمی آنے دی۔ وہ مجھے خوشگوار اور پیارے بچوں کو ان کی محبوب ما ں سے لاڈ پیار کرتا دیکھ کر مکمل طور پر قانع ہو جاتے ہیں۔ عزیز مسٹر ویڈمیئر، وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ میں نے آپ کو ہماری صورتحال کے متعلق اتنی تفصیل سے لکھا ہے، چناچہ اس خط کو استعمال نہ کیجیے گا۔وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ میں نے ان کی جانب سے آپ کو جلد از جلد بقایاجات جمع کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کو کہا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہاں آپ کی جانب سے ا س خط کا استعمال ہمارے لیے آپ کی دوستی کی حکمت اور رازداری کے تحت ہو گا۔
الوداع، عزیز دوست۔ اپنی اہلیہ کو میری پر خلوص محبت اور ننھے فرشتے کو اس ماں کی جانب سے بوسہ دیجیے گا جو اپنی چھاتی سے لگے نومولود کے لیے بہت آنسو بہا چکی ہے۔ اگر آپ کی اہلیہ بچے کو خود دودھ پلا رہی ہے، تو ان سے اس خط کا ذکر نہ کیجیے گا۔ میں جانتی ہوں کہ کسی قسم کی پریشانی کے کتنے برے اثرات پڑتے ہیں اور یہ بچے کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے تینوں بڑے بچے بہت خیریت سے ہیں۔ لڑکیاں پیاری، بڑھتی ہوئی، شادمان اور خوش ہیں، اور ہمارا موٹا لڑکا مسخرانہ مزاح کا مجسم ہے اور اس کے پاس ہر وقت لوگوں کو ہنسانے کے خیالات ہوتے ہیں۔ چھوٹا شیطان سارا دن مزے لے کر بلند آواز میں مزاحیہ گانے گاتا رہتا ہے اور جب وہ کان پھاڑ دینے والی آواز میں فریلیگراتھ کی ماراسیلائز کی یہ سطریں گاتا ہے:
آؤ جون، اور اپنے ساتھ دلکش نظارے لاؤ
تازہ نظارے، جن کے لیے ہمارے دل منتظر ہیں
تو اس کی آواز سارے گھر میں گونجتی ہے۔ اپنے دو بد قسمت پیش روؤں کی طرح، یہ مہینہ انسانی تاریخ میں اس عظیم جدوجہد کا آغاز دیکھے گا جس میں ہم سب پھر سے ایک دوسرے کے ہاتھ تھامیں گے۔
الوداع!