|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، کراچی|
پروگریسیو یوتھ الائنس(PYA) کے زیراہتمام برصغیر کی آزادی اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے عظیم انقلابی رہنماء بھگت سنگھ شہید کا یوم شہادت 25 مارچ2018ء بروز اتوار، بوقت 3بجے سہ پہر، بمقام پی ۔ایم۔اے ہاؤس میں منایا گیا۔ اس موقع پر پروگریسیو یوتھ الائنس نے ایک سیمینار بعنوان’’برصغیر کی سیاسی تاریخ اور بھگت سنگھ کاکردار‘‘ کا انعقاد کیا تھا جس میں کراچی یونیورسٹی، جناح میڈیکل کالج، ایس۔ایم لاء کالج، میمن گوٹھ لاء کالج کے طلبہ اور شہر کے دیگر علاقوں سے پی وائی اے کے کارکنوں نے شرکت کی۔ فارس راج نے اسٹیج سیکر یٹری کے فرائض سر انجام دیے۔
پروگرام کے پہلے مقرر عادل راؤ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے برصغیر کی قدیم تاریخ، انگریز سامراج کی برصغیر میں آمد اور اس کے بعد یہاں پر ہونے والی معاشی اور سیاسی صورت حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر کی قدیم تاریخ انتہائی شاندار تھی جو اپنے اُس دور کے دیگر ہم عصر تہذیبوں سے کئی گنا برتر تھی جس کاظہار آج بھی موہنجو داڑو، ہڑپہ، مہرگڑھ ایسے دیگرآثار قدیمہ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریز سامراج سے قبل اس خطے پر کئی بیرونی حملہ آور مسلط ہوئے مگر وہ یہاں کی دھنی تہذیب کا مقابلہ نہ کر سکے جس کے نتیجے میں وہ یہاں کی تہذیب ہی کاحصہ بن گئے،مگر انگریز سامراج نے ماضی کے حملہ آوروں کی نسبت مختلف کردار اداکیا۔ وہ یہاں کی تہذیب میں ضم نہ ہو سکا اس کی وجہ اس کا پیداواری ڈھانچے،اور ثقافت میں برتری تھی۔ اُن کاکہنا تھا کہ انگریز سامراج نے برصغیر میں دو سو سال تک حکومت کی اور سارے عرصے میں انگریز سامراج سے آزادی کی جدوجہد کی ایک سنہری تاریخ ہے جس کے بارے میں ہمیں سرکاری تاریخ میں کچھ بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ انہوں نے تفصیل سے 1857ء کی جنگ آزادی اور دیگر واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جدوجہد کو بھی اسی تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ آزادی کی جدوجہد جوں جوں آگے بڑھی وہ زیادہ باشعور ہوتی چلی گئی ،بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جدوجہد شعوری اور نظریاتی حوالوں سے دیگر کے مقابلے میں زیادہ اڈوانس تھی۔ انہوں نے بتایا کہ بھگت سنگھ کی جدوجہد کو ایک پروسیس میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جو اپنے اوائل میں کسی حد تک مہم جوئی اور ایڈونچر ازم پر مبنی تھی مگر مختلف واقعات سے گزرنے کے بعد بھگت سنگھ نے شاندار نتائج اخذ کیے اور ایک سائنسی نظریے کوکسی بھی جدوجہد کی بنیاد قرار دیا۔جس کا اظہار ہمیں بھگت سنگھ کی بعد کی تحریروں میں ملتا ہے۔انہوں نے تفصیل سے پارلیمنٹ،پر بم دھماکے مقاصد، ٹرین پر حملے، لالہ لجپت رائے کے انتیقاماور بھگت سنگھ کی دیگر کارروائیوں پر روشنی ڈالی۔
دیگر مقررین میں جے کے پی این پی کے رہنماکامریڈ سلطان،کامریڈ عابد، کامریڈ برکت ،کامریڈ صمد،کامریڈ جلال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر کی تاریخ کہ اصل ہیرو منگل پانڈے اور بھگت سنگھ ہی ہیں۔ سرکاری سطح پر پڑھائی جانے والی تاریخ جھوٹ کا پلندہ ہے۔
سب سے آخر میں کامریڈ ثناء زہری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھگت سنگھ کی جدوجہد آج بھی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ دور میں بھگت کے مشن کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنے نامیاتی بحران کا شکار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مسائل بھی بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ آج اصلاح پسندی ساری دنیا میں ناکام اور نامراد ہو چکی ہے اور سرمایہ داری کے بحران نے واضح کیا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بھی طرح کی اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔قومی سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان،کشمیر اور دیگر جگہوں پر قومی آزادی کی جدوجہدیں خطے کے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت سے مل کر ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔ سی پیک پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سی پیک ایک سامراجی منصوبہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان مختلف بین الاقوامی سامراجی قوتوں کی باہمی رسا کشی کا شکا ر ہو رہا ہے۔یہاں کے حکمران عالمی طاقتوں کے تضادات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں جب ان سب کی قیمت یہاں کے محنت کشوں کو چکانا پڑتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آج ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف نوجوان میدان عمل میں آ رہے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کوبھی ایک سائنسی لائحہ عمل کے تحت منظم کیا جائے۔
One Comment