|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، جہلم|
ضلع جہلم کی ایک مسجد کے امام نے 6 سالہ بچی کو، جسے وہ اس کے گھر پڑھانے جاتا تھا، اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس قبیح عمل کو سر انجام دیتے ہوئے بچی کے گھر والوں نے اسے رنگوں ہاتھوں پکڑ لیا اور اہل محلہ کی مدد سے اسے قابو کر کے گھسیٹتے ہوئے سڑک پر لے آئے۔ جہاں عوام کا جمِ غفیر اکٹھا ہو گیا اور واقعے کا علم ہوتے ہی اشتعال میں آ کر انہوں نے امام مسجد جمشید اقبال کو پیٹنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے امام کو دھکے دیتے اور گھسیٹتے ہوئے اسے برہنہ کر دیا اور جہلم کے مشہور شاندار چوک میں لے جا کر کھڑا کر دیا۔ جب پولیس کواس واقعہ کا علم ہوا تو ملزم کو حراست میں لے لیا گیا۔ لیکن لوگ دیر تک وہاں جمع رہے اور شدید غم و غصّے کا اظہار کرتے رہے۔
یہ زیادتی کا محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ آئے روز کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیس سامنے آتے رہتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے کیسز کے ساتھ ساتھ لوگوں کا غصہ بھی بڑھ رہا ہے۔ ان کیسز میں اضافے کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی جنسی گھٹن ہے۔ اصل وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ بھی شدت پکڑتی جا رہی ہے۔ اکثر ایسی خبریں ہمارے سننے میں آتی ہیں کہ بھائی نے بہن کو، خاوند نے بیوی کو، باپ نے اپنی بیٹی کو، چچا نے بھتیجی کو، ماموں نے بھانجی کو مارا پیٹا یا ان کے ساتھ کوئی بد فعلی کی ہو۔ ایسے واقعات کے پیچھے وجوہات بھی انتہائی معمولی ہوتی ہیں۔
اس نظام سے پیدا ہونے والی گھٹن اور بدبو بھی نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے، جہاں انسان کا سانس لینا بھی دشوار ٹھہر جائے۔ جب تک ایک ایسے سماج کا قیام عمل میں نہیں آتا جہاں انسان کی تمام محرومیوں کا خاتمہ کیا جا سکے اور انسان کی ہر ضرورت پوری ہو سکے، اس وقت تک ان مسائل کا کوئی حل ممکن نہیں۔ ایک غیر طبقاتی سماج، سوشلسٹ نظام ہی انسان کے لیے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج، انصاف اور جنسی ضروریات کی فراہمی کا ضامن ہو سکتا ہے تبھی معاشرے کو تمام برائیوں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔