پروگریسو یوتھ الائنس، فیصل آباد
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی انتظامیہ نے 6 جون کو 3 طالبعلموں پر ’’یونیورسٹی کو بدنام‘‘ کرنے کا الزام لگا کر برخاست کر دیا اور اب تک اسی الزام کے تحت نکالے جانے والے طالبعلموں کی تعداد 6 ہو چکی ہے۔ ان طالبعلموں کا گناہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق فیس بک پر موجود ایک پیج ’’Roznama UAF‘‘ سے ہے اور انہوں نے اس پیج پر موجود انتظامیہ کی بدعنوانی اور طالبعلموں کے مسائل سے متعلق پوسٹس پر کمنٹس کیے اور انہیں شئیر کیا۔
پروگریسو یوتھ الائنس یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جبری برخاست کئے جانے والے طلبہ کو فی الفور بحال کیا جائے۔ یہ اقدام یونیورسٹی انتظامیہ کے طلبہ دشمن کردار کو واضح کرتا ہے کہ پروفیسر صاحبان ’’استاد‘‘ کے روپ میں غنڈے ہیں اور اپنی کرپشن کو جاری و ساری رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مشال خان کا ریاستی پشت پناہی میں منصوبہ بندی سے قتل اور اب زرعی یونیورسٹی کے طلبہ کی برخاستگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جو کوئی بھی ان کی کرپشن، فیسوں میں اضافے اور طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کے خلاف آواز اٹھائے گا اس کی آواز کو خاموش کردیا جائے گا۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو طلبہ کی جیبیں خالی کروا کر لوٹ مار کرنے کی کھلی اجازت ہے مگر طلبہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر تنقید کا بھی حق نہیں رکھتے۔ ریاست اور تعلیمی اداروں میں بیٹھے ریاست کے دلال طلبہ کو دبائے رکھنے میں ہر حد پار کرچکے ہیں۔
زرعی یونیورسٹی کا شمار ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے اور اس میں قریباً 26,000 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اس یونیورسٹی کی صورتحال بھی باقی تعلیمی اداروں سے مختلف نہیں ہے۔ یونیورسٹی میں طلبہ کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن میں آئے روز فیسوں میں ہوشربا اضافے، سیکیورٹی کے نام پر انتظامیہ کا بے جا جبر، ہاسٹلوں کی کمی، لوڈ شیڈنگ اور رہائش کی ناقص صورتحال شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد روزگار نہ ملنے کا خوف اور بقا کی دوڑ بھی انہیں مسلسل ہیجانی کیفیت میں ڈالے ہوئے ہے۔ باقی تعلیمی اداروں کی طرح یہاں بھی طلبہ سیاست پر پابندی ہے اور سٹوڈنٹس کے پاس اپنے مسائل کے حل اور جدوجہد کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔
اس صورتحال میں طلبہ مختلف طریقوں سے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں جس کا ایک ذریعہ سوشل میڈیا بھی ہے۔ فیس بک پر چلنے والا یہ پیج بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس پیج پر انتظامیہ کی بدعنوانی، اقربا پروری، طلبہ کے مسائل اور بد انتظامی پر کھل کر تنقید کی گئی اور اسے سٹوڈنٹس میں کافی پزیرائی ملنے لگی۔ اسی لیے یہ انتظامیہ کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا۔ 6 جون 2017ء کو انتظامیہ نے 3 طالب علموں زبیر اقبال، غلام جیلانی اور محمد اسفند یار کو اس پیج سے تعلق رکھنے کے شک کی بنا پر یونیورسٹی کو بدنام کرنے کا الزام لگا کر برخاست کر دیا۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا، 13 جون کو منظر عام پر آنے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق 3 مزید طالبعلموں احسان صفدر، مبشر علی اور عمر بلال کو بھی اسی الزام کی بنیاد پر یونیورسٹی سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ انتظامیہ کا یہ اقدام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سٹوڈنٹس میں بڑھتا ہوا غصہ اور بغاوت کے جذبات کھل کے سامنے آنے لگے ہیں اور انہیں دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
زرعی یونیورسٹی کی انتظامیہ کا یہ اقدام بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔خاص طور پر یہ کاروائی ایسے وقت پر کی گئی ہے جب یونیورسٹی موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند ہے اور طلبہ اپنے گھروں کو گئے ہوئے ہیں۔ موسم گرما کی تعطیلات کا فائدہ اٹھا کر یہ کاروائی کرنا دراصل کسی ممکنہ ردعمل کا خوف ہے۔ ریاست کے یہ دلال طلبہ کو درپیش ان گنت مسائل کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے خوفزدہ ہیں۔ یہ یونیورسٹی انتظامیہ میں بیٹھے بڑے بڑے دماغوں کی بھول ہے کہ اس قسم کی انتقامی کاروائیاں سے طلبہ ڈر کر خاموش ہوجائیں گے۔ مشال خان کے قتل کے بعد بننے والی ملک گیر نوجوانوں کی تحریک نے یہ ثابت کیا ہے کہ نوجوان فیسوں میں اضافے، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اسی لئے تعلیمی اداروں کو جیل خانوں میں تبدیل کردیا گیا ہے تاکہ کسی بھی احتجاج اور تحریک کو طاقت سے کچلا جاسکے۔
طلبہ کے اندر بیروزگاری، فیسوں میں اضافے، لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں مشال خان نے نوجوانوں کے لئے مثال قائم کی ہے کہ نہ صرف ان مسائل کے خلاف لڑا جاسکتا ہے بلکہ ان نظریات کی بھی نشاندہی کی ہے جوکہ ان مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ یہ سوشلزم کے نظریات ہی ہیں جنہوں نے مشال خان کو متاثر کیا اور اس کو شکتی فراہم کی کہ وہ ان مسائل کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ مشال خان ان تمام نوجوانوں کا نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے جو کہ ظلم و استحصال کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ مسائل کے خلاف بڑھنے والی بے چینی اور غصے سے حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں اور حکمران بھی اس پکتے ہوئے لاوے کی تپش کو محسوس کررہے ہیں۔ مشال خان کا ریاستی پشت پناہی میں قتل اور سوشل میڈیا پر پابندی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
میڈیا پر چلنے والے ناٹک اور سماج میں موجود حقیقی مسائل نوجوانوں کے شعور میں تیز ترین تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ نوجوان اس بات کا ادراک حاصل کر رہے ہیں کہ یہ حکمران اور سیاسی جماعتیں کسی اور سیارے کی سیاست کررہے ہیں اور سماج کی اکثریت کو درپیش مسائل پر بات کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ انہی حکمرانوں نے طلبہ سیاست اور طلبہ یونین پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں۔ اس صورتحال میں طلبہ یونین کی بحالی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ طلبہ یونین کا ہی ادارہ ہے جو کہ طلبہ کے حقوق کی ضمانت دے سکتا ہے اور جس کے ذریعے طلبہ درپیش مسائل کے خلاف جدوجہد کرسکتے ہیں۔ فیسوں میں اضافہ ہو یا روزگار کا مسئلہ، درست نظریات اور پروگرام کی بنیاد پر منظم ہوکر جدوجہد سے حل کئے جاسکتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس برخاست ہونے والے ان طلبہ کے ساتھ کھڑا ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کی اس انتقامی کاروائی کے خلاف پورے پاکستان میں آواز بلند کرے گا۔