ڈیرہ مراد جمالی: بی ایس او کے انچاسویں یومِ تاسیس پر پْروقار تقریب کا انعقاد

|رپورٹ: بلاول بلوچ|

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(BSO) کے انچاسویں یوم تاسیس کے موقع پر بی ایس او(پجار) کے زیر اہتمام ڈیرہ مراد جمالی میں ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں مرکزی قائدین نے شرکت کی۔ پروگرام میں نوجوانوں نے بڑے تعداد میں شرکت کی بالخصوص نصیر آباد ریجن کے تمام زونز نے بھر پور شرکت کی۔ تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ممبر آرگنائزنگ کمیٹی رحمت بلوچ نے سر انجام دیے جبکہ صدارت مرکزی ڈپٹی آرگنائزر چنگیز بلوچ نے کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی مرکزی سیکرٹری برائے اطلاعات و نشریات بلاول بلوچ تھے اور اعزازی مہمان ممبر مرکزآرگنائزنگ کمیٹی غلام محمد بلوچ تھے۔

bso-49th-anniversary-day-celebrations-1پروگرام کا باقاعدہ آغاز بی ایس او کے انقلابی ترانہ سے کیا گیا۔ ترانے کے بعد بی ایس او کے نڈر انقلابی میر حاصل رند کی شہادت پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے رحمت بلوچ نے بی ایس او(پجار) کے مرکزی آرگنائزر ظریف رند کا پیغام پڑھ کے سنایا۔ ظریف رند نے نوجوانوں کے عزم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کے آج بی ایس او کا انچاسواں یوم تاسیس جسے آپ نوجوان جوش و خروش سے منا رہے وہ اس بات کا عزم ہے کے آپ روشن مستقبل کا علم تھامے ان سخت اور کٹھن حالات میں انتہائی دلیری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور اس ظلم پر مبنی نظام کو شکست دینگے۔ میری نیک تمنائیں آپ دوستوں کے ساتھ ہیں اور اس کامیاب پروگرام پر میں آپ سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
bso-49th-anniversary-day-celebrations-9مقررین میں صحبت پور بھاگ اور ڈیرہ مرد جمالی زون سے احسان بلوچ، فرزند بلوچ اور آفتاب بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1967ء میں جب بی ایس او کا قیام ہوا تو اس وقت تک بلوچ سماج میں بلوچوں کی کوئی نمائندہ سیاسی جماعت وجود نہیں رکھتی تھی۔ بی ایس او کے قیام کا مقصد بلوچ قوم اور مظلوم طبقے کی نمائندگی کرنا تھاجس نے قوم کے لئے بے تحاشا لیڈرز پیدا کیے اور نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر سیاسی علم و شعور سے آشنا کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کے بی ایس او کا قیام آزادانہ بنیادوں پر ہوا تھا اور آج بھی بی ایس او کو کسی بھی سیاسی پارٹی کی پشت پناہی کی ضرورت نہیں ہے۔ آج تمام تر سیاسی و جمہوری پارٹیاں خوفناک آمریت کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ہم بلوچ ہر اس فرد ہر اس طبقے کو کہیں گے جس پر ظلم ہو رہا ہے جو مظلوم ہے۔

bso-49th-anniversary-day-celebrations-10پروگرام کے مہمان خصوصی اور اعزازی مہمان بلاول بلوچ اور غلام محمد بلوچ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے تاریخی تشخص اور آج کے عہد میں بی ایس او کے کردار کے حوالے سے کہا کہ پر بات کرتے ہوے کہا کہ جہاں ایک طویل عرصے سے قیادت کی غداریوں نے نوجوانوں کو حقیقی سیاسی عمل سے کاٹ کر انہیں تنگ نظر قوم پرستی کے اندھیرے میں قید کر دیا۔ یہ نام نہاد قوم پرستوں اور حکمرانوں کی سوچی سمجھی سازش تھی جنہوں نے بی ایس او سے اس کے علمی شعوری سرکلز کو چھین لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس عہد کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے جس عہد میں بی ایس او کا ظہور ہوا جہاں ہر طرف انقلابات رونما ہو رہے تھے اور خود پاکستان محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک بہت بڑی انقلابی تحریک کی لپیٹ میں تھا۔ نوجوانوں کے متحرک کرنے کے لئے میں ترقی پسند اور انقلابی طلبہ تنظیمیں جس میں( NSF)اور (DSF) کے نوجوان سرگرم عمل تھے۔ اس انقلابی عہد میں بی ایس او کے قیام کا بنیادی مقصد نہ صرف بلوچستان بلکہ اس پورے خطے میں ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام تھا۔ بی ایس او کا پروگرام سائنسی سوشلزم پر مبنی تھا۔ بی ایس او کے نوجوان مارکسی نظریات سے لیس تھے۔ ہم نے تاریخ میں غلطیاں بھی کی ہیں اور ہمیں اپنی غلطیوں سے اسباق سیکھنے ہونگے اور تاریخ کو ایک بلند پیمانے پر دہرانہ ہو گا۔ بلوچستان کی پسماندگی، ذلت اور بربریت سے نجات کا واحد راستہ بی ایس او کے مقصد اور پیغام کی روشنی میں ایک سوشلسٹ معاشرے کی تکمیل ہے۔
bso-49th-anniversary-day-celebrations-12آخر میں صدرِ تقریب اور بی ایس او کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر چنگیزبلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کسی بھی سماج کی خواہشوں، ضرورتوں اور حقوق کا منظم اظہار اور ان حقوق کے حصول کا واحد طریقہ کار ہوتا ہے اور بی ایس او کے قیام کا مقصد سماج میں نابرابری اور استحصال کا خاتمہ کرکے ایک حقیقی انسانی سماج کا قیام تھا اور اپنی طبقاتی پوزیشن اور سوشلسٹ پروگرام کی وجہ سے مختصر عرصے میں دنیا کی سب سے جنگجو اور سرخیل انقلابی تنظیموں میں شمار ہونے لگی۔ بی ایس او اپنے قیام کے ساتھ ہی پورے بلوچ سماج کی نمائندہ تنظیم بن گئی اور بلوچ قوم کا ہر بچہ، بڑا، بوڑھا خود کو بی ایس او کہتا تھا۔ اپنے حقوق کی جدوجہد میں جہاں بی ایس او نے بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف اعلان جنگ کیا وہیں پوری دنیا کے مظلوموں و محکوموں اور محنت کشوں کو اپنے جیسا اور اس نظام کے خلاف جدوجہد میں اپنا حقیقی ساتھی سمجھ کر عالمی پرولتاری جنگ میں صفحہ اول کا کردار ادا کیا۔ جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے تحت کوئی بھی چیز کسی دوسری چیز سے کٹی ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی علیحدہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے جہاں بی ایس او کا قیام عالمی انقلابی عہد کی غمازی تھا وہی اس کا زوال بھی عالمی انقلابی قوتوں کے زوال کے ساتھ جڑا ہے۔ ثور انقلاب کا ردِانقلاب میں تبدیل ہو جانا اور سویت یونین کے انہدام کے ساتھ شروع ہونے والی زوال پذیری نے بی ایس او پر بھی اپنے اثرات ڈالے اور مایوسی کی اس کیفیت میں مفادپرستوں اور قومی شاونسٹوں نے موقع پاتے ہی بی ایس او پے اپنا غلبہ تیز کر دیا اور اپنے مفادات کی خاطر بی ایس او جیسی عظیم تنظیم کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر حقیقی نظریات کبھی مٹ نہیں سکتے اورباشعور بلوچ نوجوانوں نے اپنے انقلابی ادارے کو بچانے کی بھرپور جدوجہد کی کیونکہ یہی وہ فیصلہ کن ادارہ تھا جس سے قوم کا مستقبل وابستہ تھا اور آج بھی جب حالات اپنی بدترین صورتحال اختیار کر چکے ہیں اور نام نہاد قوم پرستوں اور قوم کے دعوے داروں نے پارلیمنٹ اور عالمی منڈی میں قوم کی بولی لگائی اور بیچ چکے ہیں اور آج پھر ایک انقلابی عہد کروٹ لے رہا ہے اور تاریخ نے یہ فریضہ ہمارے کندھوں پر ڈالا ہے کہ اپنی تاریخ اور جدوجہد سے وفا کرتے ہوے اپنے حقیقی نظریات اور جدوجہد کو اپناتے ہوئے بی ایس او کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے اس جنگ کو تمام مظلوموں و محنت کشوں کی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے عالمی سطح پر اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑی جائے اور کامیاب سوشلسٹ انقلاب تک جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔

This slideshow requires JavaScript.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.