|رپورٹ: نوروز زہری|
پروگریسیو یوتھ الائنس اور بی ایس او (پجار) کے زیر اہتمام افغان ثور انقلاب کی 39 ویں برسی 27 اپریل بروز جمعرات سائنس کالج کوئٹہ میں ظریف شہید آڈیٹوریم میں منائی گئی۔ ثور انقلاب کی اس تقریب کو مشال خان کے نام منسوب کیا گیا تھا۔ ظریف شہید آڈیٹوریم میں ثور انقلاب کے حوالے سے آخری تقریب 22سال قبل منعقد ہوئی تھی۔تقریب میں 120 کے قریب نوجوانوں اور ترقی پسند کارکنان نے شرکت کی جس میں اکثریت نوجوانوں اور طلبہ کی تھی۔تقریب کی صدارت پارس جان نے کی جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض کریم پرھر نے ادا کیے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز رزاق غورزنگ نے کیا۔ رزاق نے آئے ہوئے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور ثور انقلاب پر تفصیل سے بات رکھی۔ رزاق نے کہا کہ ثور انقلاب افغان سماج جو کہ انتہائی پسماندہ تھا مگر وہاں پر موجود مارکسسٹ نظریات کے پیروکاروں نے باشاہت کا تختہ اُلٹا کر وہاں پر ایک جمہوری حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ اسکے علاوہ اُنہوں نے انقلاب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حاصلات پر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ وہاں پر زمینوں کی تقسیم، جاگیرداری کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق، تعلیم اور صحت کی ترقی، سود کا خاتمہ اور دیگر حاصلات کا ذکر کیا۔ دیگر مقررین میں ابراہیم کاسی، امان بازئی، بسم اللہ خان کاکڑ نے بات رکھی۔ اور اُنہوں نے ثور انقلاب کے حوالے سے اپنے خیلات کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں چنگیز بلوچ نے ثور انقلاب اور مشال خان کے حولے سے تفصیلاَ بات رکھی اور کہا کہ آج کے افغانستان اور پورے خطے کو ایک بار پھر ثور انقلاب کے اعلیٰ پیمانے پر بین الاقوامی طبقاتی جُڑت کے ساتھ ضرورت ہے تا کہ اس خطے کو بربریت سے نکالا جا سکے۔
تقریب کے آخر میں پارس جان نے مشال خان کی جدوجہد کو سراہا اور کہا کہ مشال خان کے وحشیانہ قتل کیخلاف جو احتجاج ہوئے اُسکا اثر جمودی اور قنوطی دانشوروں پر بھی پڑا۔ جو جمودیت کا رٹا لگائے ہوئے تھے کہ جمود ہے۔ اسکے علاوہ عالمی معیشت اور بدلتی ہوئی عالمی حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے عہد اور اپنے معروضی حالات کو پہچاننا ہو گا کہ ہم کس عہد میں رہ رہے ہیں اور مشال کے واقعے پر پاکستان کے اندر مروجہ سیاسی پارٹیوں کے پالیسیوں اور مُجرمانہ خاموشی پر شدید تنقید کی۔ اُنہوں نے مزیدکہا کہ ثور انقلاب کا افغان پسماندہ سماج میں آنا اُس وقت کی ناگُزیریت تھی جیسا کہ آج سے 100 سال پہلے روس کے پسماندہ سماج میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تھا۔ اور کہا کہ سرمایہ داری اپنی طبعی زندگی پوری کر چُکی ہے اور اُسکی ناکامی اور بربریت آج ہم افغانستان سمیت پُوری دُنیا میں دیکھ رہے ہیں جو کہ ہر روز ایک نئی وحشیت اور بربریت کی نئی مثالیں قائم ہو رہی ہیں۔ جسکی وجہ سے انسانیت کے پاس دو ہی راستے ہیں بربریت یا سوشلزم۔