|تحریر: نعیم مہار|
حکمران طبقہ آبادی کی وسیع اکثریت پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے نظریاتی حربے استعمال کرتا ہے اور محکمو م طبقے کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا مسلط کیا جابرانہ نظام عین فطری ہے۔ اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے حکمرانوں کا ایک پرانا اور آزمودہ حربہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘(Divide and Rule)ہے۔ محنت کش طبقے کو رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ محنت کش طبقہ منظم ہو کر نظام کے خلاف بغاوت نہ شروع کردے۔ اگر ہم عورت کے خلاف جبر کے مسئلے کا جائزہ لیں تو ہمیں یہی واردات دیکھنے کو ملتی ہے جس کے تحت ایک مخصوص سوچ کے ذریعے محنت کش عورتوں اور مردوں کے مابین دراڑ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عورت کے خلاف جبر ایک سماجی مسئلہ ہے۔ یہ مرد کی فطرت میں شامل کوئی فتور نہیں ہے لیکن فیمینسٹ اسے ایک حیاتیاتی مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ عورت کا استحصال اور جبر کرنا مرد کی فطرت میں شامل ہے۔ اس طرح کے مضحکہ خیز نظریات کا کیا مقصد ہے؟ عورت سماج کانصف حصہ ہے اور اگر وہ اپنے خلاف جبر کی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے مرد محنت کش ساتھیوں کے ہمراہ اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اس نظام کی بقاء کو حقیقی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ روس سمیت سماج کو بدل کر رکھ دینے والے ہر انقلاب میں عورتوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔
ہم بطور مارکس وادی عورتوں پر جبر کی ہر شکل کے شدید خلاف ہیں اور ان کے معیار زندگی میں بہتری کیلئے چھوٹی سے چھوٹی اصلاحات کی بھی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اگر ایک مرض کی درست تشخیص ہی نہیں ہوگی تو پھر آپ اس کا علاج کیسے کرسکتے ہیں؟فیمنسٹوں کی پیش کردہ بھونڈی سوچ صرف مایوسی کی طرف ہی لے کرجاسکتی ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ مرد کی فطرت میں چھپی کوئی ابدی برائی ہے تو پھر اس کا کوئی حل کیسے ممکن ہوسکتاہے؟
مارکسزم ایک سائنس ہے جو انتہائی باریک بینی سے ان تبدیلوں کا جائزہ لیتی ہے جس سے گزر کر سماج آج یہاں تک پہنچا ہے۔ مارکسزم کے مطابق عورتوں کے خلاف جبر، سماج کی طبقات میں تقسیم کی پیداوار ہے۔ اگر ہم قدیم اشتراکی سماج(جو کہ روئے زمین پر انسانی وجود کے 99فیصد وقت پر مشتمل ہے )کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کی حالت ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی بلکہ عورت کو ایک بلند مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ لوگ مل جل کر قبائل(Gen) کی صورت میں رہتے تھے۔ نجی ملکیت کی عدم موجودگی اور مادر سری نظام کے باعث ایک بچہ باپ کے بجائے ماں کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اس کے بعد سماجی ارتقاء کے ایک خاص مرحلے پر ذرائع پیداوار میں ترقی کے باعث زائد پیداوار شروع ہوئی جس سے نجی ملکیت نے جنم لیا ۔یہاں سے مرد کے غلبے کا دور شروع ہوااور زائد پیداوار پر قابض طبقے نے اپنی نجی ملکیت کو تحفظ دینے کے لئے گین کا خاتمہ کرتے ہوئے پدرشاہی خاندان کی بنیاد ڈالی تاکہ مرد اپنے بچوں کو نجی ملکیت منتقل کرسکے۔ مادر سری نظام کی جگہ پدر شاہی نظام نے لے لی اوربچہ اب اپنی ماں کے بجائے اپنے باپ کے نام سے پہچانا جانے لگا۔
اس موضوع پر اینگلز نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے ۔مختصراً عورت کے خلاف جبر ایک طبقاتی مسئلہ ہے جوکہ سرمایہ دار نظام کا ناگزیر حصہ ہے۔ عورت کی آزادی طبقات سے پاک نظام کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سوشلزم کے بعد مادی حالات کی تیز تر ترقی کے نتیجے میں گھریلو کام کاج مثلاً کھانا بنانا، کپڑے دھونا اور بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ کو کمیونٹی میس، لانڈری اور ڈے اینڈ نائٹ کئیر سینٹرز بنا کر انفرادی سے سماجی ذمہ داری بنا دیا جائے گا تاکہ خواتین گھریلو غلامی سے آزاد ہو سکیں۔عورتوں کو روزگار کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ معاشی طور پر آزاد اور آسودہ ہو سکے ۔ سرمائے کی حاکمیت کے خاتمے کے بعد انسانی تعلقات میں موجود لالچ اور طمع جیسی برائیاں بھی ختم ہوجائیں گی اور مرد اور عورت کے مابین تاریخ میں پہلی مرتبہ حقیقی اور سچے تعلقات جنم لے سکیں گے ۔
عورت کی آزادی اس نظام کے خاتمے اور کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ ہی مشروط ہے۔