|تحریر:آسکر ٹلکوٹ، ترجمہ: عائشہ یوسف|
کمیونسٹ مینی فیسٹو 174 سال پہلے 21 فروری 1848ء کو پہلی بار شائع ہوا تھا۔ صدیوں پرانا ہونے کے باوجود مینی فیسٹو جدید تاریخ کی سب سے زیادہ اثر انگیز کتابوں میں سے ایک رہا ہے اور تاحال بھی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس نے سائنسی سوشلزم کے نظریات کا تعارف کروایا، جن کے بارے میں مارکس اور اینگلز نے آئندہ 50 برسوں میں تفصیل سے بیان کرنا تھا اور جس نے آنے والے انقلابیوں کے اقدامات کے لئے راہنما کے طور پر کام کرنا تھا۔
لیکن محض تاریخی آثار سے زیادہ، مینی فیسٹو کے مندرجات آج بھی ان حالات کی وضاحت کرتے ہیں جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔
حاکم نظریات حکمران طبقے کے نظریات ہیں
مارکس نے جس صورتحال پر روشنی ڈالی وہ 174 سال پرانی نہیں لگتی۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کو پڑھتے ہوئے اس میں لکھے گئے الفاظ کو آج سے جوڑنا آسان ہے کیونکہ تب سے اب تک صورتحال بہت کم ہی تبدیل ہوئی ہے۔
مارکس نے کہا تھا،”قانون، اخلاقیات، مذہب وغیرہ سب مزدور طبقے کے لئے بورژوا تعصبات ہیں، جن کے پیچھے بہت سے بورژوا مفادات چھپے ہوتے ہیں“۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ حکمران طبقہ استحصال کے اس ظالمانہ نظام کو، جس کا وہ حکمران ہے، چھپانے کے لئے کسی بھی اخلاقی معیار کو استعمال کرے گا۔
مثال کے طور پر ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ مراعات کے مطالبے پر سرمایہ دارانہ اخلاقیات کو معاشرے پر تھوپا جاتا ہے۔ بورژوازی ”مراعات یافتگان“ کے خلاف نفرت بھڑکا کر خوش ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ لوگ زیادہ محنت نہیں کرتے ہیں۔
تاہم، یہ سرمایہ دار طبقہ ہی ہے جو بیٹھ کر پیسہ کماتا ہے جبکہ دوسرے لوگ محنت کرتے ہیں اور ایک ہفتہ میں 85 یورو سے کچھ زیادہ رقم کما پاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک فائدہ مند خلفشار ہے کہ معاشرے کے سب سے کمزور افراد کو مورد الزام ٹھہرائیں جبکہ سرمایہ دار پیچھے بیٹھے اپنی اربوں کی دولت سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ یہی وہ بورژوا تعصبات ہیں جو سرمایہ داری کی اخلاقیات کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔
سرمایہ داری کا موروثی بحران
مارکس نے 1848 میں کہا تھا کہ کیسے ”تمام معاشرتی حالات کا بلاتعطل خلل، ہمیشہ کی غیر یقینی صورتحال اور اشتعال انگیزی بورژوا عہد کو پہلے کے تمام ادوار سے منفرد کرتی ہے“۔ پچھلا سارا عرصہ یقینی طور پر اسی خاکے سے مطابقت رکھتا ہے۔
2008 میں، مالیاتی تباہی نے بحران کے ایک نئے اور کہیں زیادہ شدید دور کا آغاز کیا، جو شدید کٹوتیوں اور سماجی سہولیات جن پر محنت کشوں کے خاندانوں کا انحصار تھا، کے خاتمے کا مؤجب بنا۔ دریں اثنا، بہت بڑے قرضوں کا آہستہ آہستہ اُبھار ہوا جنہیں اگلی نسلوں نے ادا کرنا تھا۔ سکول اور یونیورسٹی کے طالب علم یکساں طور پر اس عمل سے اجنبی نہیں ہیں۔ ٹیوشن فیس میں تین گنا اضافہ، کام کی غیر مستقلی، حالاتِ زندگی کی تباہی، بڑھتی بے روزگاری اور بڑھتی بے گھری سے ہر روز ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ مستقبل کا رُخ بالکل بے رنگ لگتا ہے۔
حالیہ کورونا وبا نے صرف اس عمل کو بڑھاوا دیا ہے، اور بحران کے ایسے دور کی آمد کا اعلان کیا ہے جو بلیک ڈیتھ (Black Death) کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا۔
اس میں ہم مارکس کے پیغمرانہ مقولے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جس میں وہ سرمایہ داری کا موازنہ اس جادوگر سے کرتا جو اب ان سب شیطانی قوتوں کو قابو کرنے سے قاصر ہے جن کو اس نے خود ہی آزاد کیا۔ ٹوری پارٹی دانشمند بورژوازی،جس کی وہ نمائندہ ہے، اور بورس جانسن کے کیمپ میں موجود رجعت پسند اور دائیں بازو کے عناصر کے درمیان پھنسی ہے جو ملک کو بحران در بحران میں دھکیلنے کا باعث بن رہے ہیں۔ سب کچھ سرمایہ داروں کے قابو سے باہر ہو چکا ہے۔
سوشلزم یا بربریت
سرمایہ دارانہ بحرانوں کی وجہ سے ہونے والی سلسلہ وار تباہی کے ساتھ ساتھ، سرمایہ داری اپنے وجود کے لیے بھی دائمی طور پر خطرہ ہے۔ 1848 میں مارکس نے سرمایہ داری کے تحت ”فطرت کی قوتوں کو انسان کے تابع کرنے“ کا ذکر کیا۔ مارکس نے بتایا کہ صنعتی ترقی کے اس ابتدائی مرحلے میں ہی ”صنعت اور زراعت میں کیمیا کا اطلاق“ اور خاص طور پر ”پورے براعظموں کو صاف کرنا“ کیسے شروع ہوا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی اکیسویں صدی میں سماج کو درپیش سنگین مسئلہ ہے، جو کہ سرمایہ دارانہ پیداوار کے سلسلے میں ہونے والے لاتعداد آلودگی پھیلانے والے جرائم کے پہلو بہ پہلو 2050 تک آب و ہوا کی تباہی کا امکان رکھتا ہے۔
سامراج کی پیدا کردہ وحشیانہ جنگیں اس کی ایک اور مثال ہیں۔ مارکس ٹھیک تھا جب اس نے پیشین گوئی کی تھی کہ بورژوازی ”تمام قوموں کو بہ زورِ طاقت بورژوا ذرائع پیداوار کو اپنانے پر مجبور کرتی ہے“۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ جیسی بورژوا طاقتوں کی نوآبادیاتی اور سامراجی پالیسیوں کی پیش گوئی کی۔ بدنام زمانہ”افریقی مار دھاڑ“ سے لے کر متعد جنگوں، 20 ویں صدی کے آخری نصف کی غیر ملکی جارحیتوں اور قبضوں تک میں ہم باقی دنیا کے خلاف ایک حقیقی جنگ دیکھتے ہیں۔
مینی فیسٹو کا مقصد
لیکن بہت سی حیرت انگیز پیش گوئیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے عمل کی تفصیل کو جو کسی بھی یونیورسٹی کی نصابی کتاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ مناسب ہے، چھوڑ کر، مینٹی فیسٹو کا نقطہ یہ نہیں ہے کہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے مسائل پر بات کی جائے، بلکہ یہ دنیا کو تبدیل کرنے والے ہتھیاروں (محنت کشوں) کے لیے بلاوا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مینی فیسٹو سرمایہ داری سے لڑنے اور اس کو ختم کرنے کی بنیاد، یعنی طبقاتی جدوجہد کی وضاحت کرتا ہے۔
سرمایہ داری،اپنے سے پہلے کے کسی بھی معاشرتی نظام کی طرح،محنت کش طبقے کی شکل میں اپنا گورکن خود پیدا کرتی ہے۔ اس وقت جب مارکس اور اینگلز نے یہ (مینی فیسٹو) لکھا تھا، یہ طبقہ تب اپنے پیدائشی مراحل میں تھا اور برطانیہ میں صرف عددی اور سیاسی طور پر موجود تھا۔ آج یہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقت ور ہے اور برطانیہ میں آبادی کی بڑی اکثریت پر مجتمع ہے۔
جب مارکس اور اینگلز نے مینی فیسٹو لکھا تو یہ محض دلچسپی کی بناء پر نہیں لکھا گیا تھا، بلکہ اِن دونوں عظیم انقلابیوں کے نظریات کو عوام تک لانے کے لئے لکھا تھا۔ پہلی انٹرنیشنل، جس کا مارکس اور اینگلز کلیدی حصہ تھے، نے اس متن کو مارکس کے نظریات پھیلانے کے لئے چھپوایا۔ مینی فیسٹو کا مقصد ہمیشہ طبقاتی شعور کو بلند کرنا اور انقلابی تخلیق کرنا ہے۔
مارکسزم کا مقصد (محنت کش) طبقے کو انقلابی پروگرام سے آراستہ کرنا ہے تاکہ سرمایہ داری کی نہ ختم ہونے والی خوفناکی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں جن نظریات کا خلاصہ کیا گیا ہے وہ انقلابیوں کے لئے رہنما ہیں اور جدید تاریخ کے فیصلہ کن واقعات پر ان کا اثر پڑا ہے۔ ہم غیر معمولی افراد کے نقش قدم پر کھڑے ہیں۔ یہ مارکسسٹ سٹوڈنٹ فیڈریشن کا کام ہے کہ، بین الاقوامی مارکسی رجحان کے ایک حصے کے طور پر، ہم یہ چُغہ پہنیں، ان نظریات کا مطالعہ کریں، اور اکیسویں صدی کے سوشلسٹ انقلاب کی رہنمائی کے لئے ان کا استعمال کریں!
کمیونسٹ مینی فیسٹو پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں