یو ای ٹی: لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے نہ بیٹھیں!

|تحریر: رائے اسد|

چند روز قبل یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی(UET) کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق یونیورسٹی کے کمرہ ہائے جماعت اور کینٹین وغیرہ پر لڑکوں اور لڑکیوں کے اکٹھے بیٹھنے پر پابندی لگائی جائے گی۔ اس فیصلے کا نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر خاصا مذاق اڑایا اور مذمت کی گئی اور اسی دباؤ کی وجہ سے نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا۔ اس مخصوص فیصلے پر بحث کرنے سے پہلے ہم ملکی صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے جس سے نکلنے کی مضحکہ خیز کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن کسی بھی بحران کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ حکمران طبقہ کی دولت میں کمی ہو۔ اس کے برعکس ان کی دولت کے انبار بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ بحران کے نتائج صرف عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں جبکہ خواص اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ مسائل کی فہرست اتنی طویل ہے کہ لکھتے لکھتے ہاتھ تھک جائیں۔ مہنگائی میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، روزگار کم ہوتا جا رہا ہے، تعلیم مزید مہنگی ہو رہی ہے، ہسپتالوں کی نجکاری کرکے ماضی میں کسی حد تک میسر مفت علاج کی سہولت کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ان گنت مسائل ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے ریاست عوام کو نان ایشوز میں الجھانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہے۔ کبھی کرپٹ لیڈروں کو گرفتار کرکے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن عوام یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگاتے کہ زرداری یا نواز کے جیل جانے سے ان کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ اسی ڈرامے میں نئے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں یا پیٹرول مزید مہنگا کر دیا گیا ہے۔ کبھی کسی سیاسی مسخرے کی کسی جگہ ویڈیو بنائی جاتی ہے کہ دیکھو ہمارا لیڈر کتنا خاکسار ہے جو عام لوگوں کے ساتھ قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظارر کر رہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ دیکھو ہمارا وزیرِاعظم پرچی کے بغیر انگریزی میں تقریر کر رہا ہے۔ اسی سے ایک دوست کی بات یاد آ گئی جو چند ماہ پہلے مجھے کہہ رہا تھا کہ ”یار وزیرِاعظم صاحب ہمیں اچھی نوکری دے دیں پھر چاہے پرچیاں دیکھ کر تقریر کریں یا بیشک بولے بغیر اشاروں میں بات کریں“۔

کبھی وزیرِ اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن حکمرانوں کی بدقسمتی ہے کہ لوگ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس ڈرامے سے بہتر یہ نہیں تھا کہ جو گنتی کی چند سرکاری یونیورسٹیاں پہلے سے موجود ہیں ان کی فیسیں بڑھانے کی بجائے کم کی جائیں تاکہ غریب کے بچے پڑھ سکیں؟

یہ تمام تر بحث یہ سمجھانے کے لیے کہ گئی ہے کہ یونیورسٹیوں میں بھی کچھ ایسی ہی پالیسیوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔ یو ای ٹی میں اس نوٹیفکیشن سے کچھ دن پہلے فیسوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی حدود میں طلبہ سانس لینے کے علاوہ شاید ہر چیز کے پیسے دے رہے ہیں۔ اتنی فیسیں دینے کے باوجود یونیورسٹیوں میں ہاسٹلوں، میس، ٹرانسپورٹ وغیرہ کی جو حالت ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے کہ آج سے لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس سے پہلے بھی مختلف اداروں میں ایسے نوٹیفکیشن جاری ہوتے رہتے ہیں۔ انتظامیہ کو طلبہ کے اکھٹے بیٹھنے پر اعتراض اس لیے بھی ہے کہ طالب علم لڑکا ہو یا لڑکی، ان کے بنیادی مسائل مشترک ہیں جن میں فیسوں کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ انتظامیہ کو خوف ہے کہ ان مسائل پر طلبہ مشترکہ جدوجہد کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے طلبہ کو ایک ساتھ بیٹھنے سے روکا جاتا ہے کہ کہیں ان میں مسائل پر بحث کا آغاز نہ ہو جائے اور کسی عملی اقدام کی طرف نہ بڑھیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ کیمپس میں مسلسل خوف کا ماحول بنا کر طلبہ کی آواز کو دبانے کی یہ بھونڈی ترکیب ہے۔ لیکن لگاتار فیسیں بڑھانے کے نتیجے میں طلبہ کی طرف سے ردِ عمل آنا نا گزیر ہے۔ فیسیں بڑھا کر طالب علوں سے پڑھنے کا حق چھینا جا رہا ہے اور توقع یہ کی جارہی ہے کہ طلبہ اس پر خاموش رہیں گے۔ ایسا ناممکن ہے! جلد ہی طلبہ رنگ، نسل، مذہب، قوم، زبان اور جنس کے امتیاز سے بالا تر ہو کر مشترکہ جدوجہد کی طرف بڑھیں گے۔ لیکن ان کو جدوجہد کا رستہ اور طریقہ کار معلوم ہونا چاہیے! وہ رستہ کیمپس کے اندربھی اور ملک گیر سطح پر بھی، طلبہ کا اتحاد ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.