ریاست، سیاست اور پارلیمانی جدوجہد

|تحریر:شیلے او سلیوان، ترجمہ: زید پیرزادہ|

کمیونسٹ مینی فیسٹو کے پہلے صفحے پر مارکس نے ہمارے عہد کے کردار پر روشنی ڈالی ہے: ”سرمایہ داروں اور محنت کش طبقے کے مابین طبقاتی جدوجہد“۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تصادم میں مبتلا ہیں اور دونوں اپنے یکسر مخالف طبقاتی مفادات کے لئے لڑ رہے ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ان طبقوں کے مابین جدوجہد کو آج 200 سال سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے۔ تو پھر ان دونوں طبقات نے اپنی جدوجہد کے دوران معاشرے کو بانٹ کیوں نہیں دیا؟

سرمایہ داروں کے مفادات واضح ہیں محنت کشوں کا استحصال کرنا اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا۔ در حقیقت چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین کا موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب مالکان کو موقع ملا تو وہ بربریت کی کسی بھی حد تک چلے جائیں گے۔

دوسری طرف، محنت کش طبقے کے استحصال کے خلاف مزاحمت کرنے میں مشترکہ مفادات ہیں، اور معیارِ زندگی کی بہتری کے لیے بہتر تنخواہ اور حالات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بظاہر ان دونوں قوتوں کے اوپر ریاست کھڑی ہے۔ عام حالات میں، ریاست ایک ”غیر جانبدار“ ثالث کے طور پر نظر آتی ہے، جو سب کے لیے مفید سمجھے جانے والے قوانین وضع کرتی ہے اور نظم و ضبط برقرار رکھتی ہے۔ تاہم حقیقت میں، ریاست حکمران طبقے کا ایک آلہ ہے، جسے معاشرے پر اپنا تسلط قائم رکھنے اور اپنے طبقاتی مفادات کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

اپنی سب سے بنیادی شکل میں، ریاست ”مسلح افراد کے جتھوں“ پر مشتمل ہوتی ہے، جو کہ موجودہ اسٹیٹس کو یعنی محنت کش طبقے کے استحصال کی بنیاد پر حکمران طبقے کی طاقت اور جائیداد، کے دفاع کیلئے موجود ہوتی ہے۔

اس مقصد کے لئے، ریاست عدالتوں اور قانونی نظام کو منظم کرتی ہے، جو سرمایہ دارانہ املاک کے حقوق یعنی اجرتی غلامی کا دفاع کرتا ہے۔ اور یہ نجی املاک (سرمایہ دارانہ املاک) کی برقراری کے لیے مسلح جتھوں: پولیس، مستقل فوج، اور جیلوں کا انتظام کرتی ہے۔

ولادیمیر لینن – بالشویکوں کے رہنما – نے کارل کاؤتسکی جیسے اصلاح پسندوں کے خلاف ریاست کے مارکسی موقف کا دفاع کیا۔

جب مزدور بہتر معیار زندگی کے لئے منظم ہوتے ہیں اور جدوجہد کرتے ہیں تو بہر حال سرمایہ دار طبقے کو اکثر مراعات دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، مثال کے طور پر، محنت کشوں کی جدوجہد کی بدولت چائلڈ لیبر قوانین آئے تھے۔ بعد میں، یہ یقینی بنانے کے لئے کہ بزرگ محنت کش مفلسی کی کھائی میں نہ جاگریں، پنشن متعارف کروائی گئی۔ اور برطانیہ میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران اور اس کے بعد کے عرصے میں عوامی پیمانے کی ریڈیکلائزیشن کی بنا پر NHS کی شکل میں ہمہ گیر حفظانِ صحت کا نظام قائم کیا گیا۔

یہ نام نہاد ’سوشلسٹ‘ پالیسیاں در حقیقت صرف گاجریں ہیں، جب لاٹھی کا جبر مزید کام نہیں کرپاتا یا جب حکمران طبقے کو یہ خوف لاحق ہو کہ بڑی چھڑی کے استعمال سے انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔

ایسا ہی آج دنیا میں لاگو پارلیمانی جمہوریت کے نظام کے لئے ہے۔ پارلیمانی جمہوریت ایک سیٹ اپ ہے جو سرمایہ دارانہ معاشرے کی حقیقت، جوکہ حقیقت میں ایک آمریت ہے، بینکاروں کی آمریت،کو چھپانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔

سرمایہ داری میں پارلیمنٹ بکواسیات کی دکان کے سوا کچھ نہیں، ایک فورم جہاں سرمائے کے نمائندے اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لیے بحث کرتے ہیں۔

جمہوریت کی یہ بورژوا شکل، جہاں تمام حقیقی فیصلے احتساب سے ماورا مالکان اور بینکاروں کے ذریعہ کیے جاتے ہیں، سیفٹی والو کے طور پر بھی کام کرتی ہے، جو سماج کے اندر بننے والے دباؤ کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

عوام کا نمائندہ سمجھے جانے والے کسی منتخب ادارے کا وجودجو تبدیلی اور پیشرفت کے کھوکھلے وعدے کرتا ہے، اسٹیبلشمنٹ کو عوام کے غصے اور عدم اطمینان کو‘محفوظ’راستوں سے کسی اور سمت موڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

اس طرح، پورے بوسیدہ نظام کو ختم کرنے کے لئے منظم ہونے کی بجائے، محنت کشوں کو مختلف بڑے کاروباری سیاستدانوں میں سے اِس یا اُس سرمایہ داری کے نمائندے کے درمیان سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع دیا جاتا ہے۔ اوپر چہرے بدل جاتے ہیں، لیکن پارلیمنٹ کے اندر انہی سرمایہ دارانہ طبقاتی مفادات کا بھرپور دفاع کیا جاتا ہے۔

ہم امریکہ میں اس کی مثال دیکھ سکتے ہیں۔ صرف بڑی سیاسی جماعتیں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس ہیں۔ سرمایہ دارانہ میڈیا ان کوحقیقی مخالفین کے طور پر دکھاتاہے۔ لیکن حقیقت میں وہ ایک جیسے ہیں۔

دونوں بورژوا جماعتیں ہیں، جو سرمایہ دار طبقے کی وفاداری کے ساتھ خدمت کررہی ہیں، اور محنت کشوں کے خلاف وال اسٹریٹ کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے کام کررہی ہیں۔ یہ پارٹیاں ہر چار یا آٹھ سالوں کے چکر میں حکومت میں آتی اور جاتی رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک واحد بورژوا آمریت کے دو متبادل فوجی جوتے ہیں۔

تاہم، بہت سارے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں، محنت کش اپنے آزادانہ مفادات کے دفاع کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، اول، ٹریڈ یونینز تشکیل دے کر، دوم محنت کشوں اور مزدوروں کی نمائندگی کے لئے سیاسی جماعتیں تشکیل دے کر۔

حتی کہ یہاں بھی،جب محنت کش طبقہ اپنی جماعتیں تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے، سرمایہ دار طبقہ بیکار نہیں بیٹھتا۔ جیسا کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے معاملے میں دیکھا جاسکتا ہے، اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ محنت کشوں کی پارٹی کو بدعنوان کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی، تاکہ وہ یہ یقینی بنائے کہ ان کے پاس سرمایہ داری کے لئے قابل اعتماد گروہ موجود ہے۔

لیبر پارٹی کے اندر ہونے والی حالیہ جدوجہد اس کی ایک عکاس ہے کہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ پارٹی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور دوسری طرف محنت کش سوشلسٹ خطوط کے ساتھ پارٹی کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔

جرمن انقلاب کی ناکامی اس کی ایک اور مثال پیش کرتی ہے۔ جرمن سوشل ڈیموکریسی (ایس پی ڈی) 1870 کی دہائی سے جرمنی میں محنت کش طبقے کی عوامی پارٹی رہی تھی۔ اس کی ریخ اسٹیگ (جرمن پارلیمنٹ) میں بڑی تعداد میں نشستیں تھیں۔

لیکن کئی دہائیوں کے دوران، پارٹی کے رہنما سرمایہ دارانہ سماج کے دباؤ میں آگئے تھے۔ اس کی بہت سی اہم پرتوں نے مارکسزم اور حقیقی سوشلزم کے نظریات ترک کرتے ہوئے محنت کش طبقے سے علیحدگی اختیار کی اور حکمران طبقے نے ان کو خرید لیا۔ وہ مارکس اور اینگلز کے الفاظ میں ”مزدوروں کے اْمراء“بن گئے۔

اس کا مظاہرہ 1914 میں ہوا جب ایس پی ڈی کے اراکینِ پارلیمنٹ نے مزدور طبقے کے ساتھ دھوکہ کیا اور ’جنگی کریڈٹس‘ کو ووٹ دیا جس سے جرمنی پہلی عالمی جنگ میں کود پڑا۔

1918 میں، جب جرمنی میں ایک انقلابی لہر دوڑ گئی اور مزدور طبقے نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لیا، یہ ایس پی ڈی ہی تھی جس نے ایک نئی سرمایہ دارانہ ریاست کا اعلان کرتے ہوئے حکمران طبقے کو بچایا۔ اور یہ ایس پی ڈی حکومت ہی تھی جس نے اگلے مہینوں میں کمیونسٹ رہنماؤں روزالگسمبرگ اور کارل لیبنیخت پر رجعتی فرییک کارپس مرتب کیے۔

جرمنی میں 1919-1918 کے انقلابی عرصے میں ہونے والے ایک احتجاج کی تصویر۔ پورٹریٹس:کارل لیبنیخت(بائیں طرف) اور روزالگسمبرگ (دائیں طرف)

سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے کے لیے کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس کے بجائے، منظم محنت کش طبقے کو انقلاب کے ذریعے سرمایہ داروں کے ظلم و جبر کے اوزاروں: اُنکی پولیس، انکی عدالتوں اور انکی فوج کو تباہ کرنا ہوگا۔

اس کی جگہ محنت کش طبقے کو پیداوار اور معیشت کی جمہوری ملکیت اور کنٹرول کے لئے لڑنا ہوگا۔ سماج کے تمام پہلو لازمی طور پر منظم مزدور طبقے کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔

ابتدائی طور پر، یہ محنت کشوں کی ریاست کی شکل اختیار کرے گا، جہاں تمام عہدیداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے، جہاں نمائندوں کو اوسط محنت کش سے زیادہ معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے۔ اور جہاں ہر شخص کے پاس وقت ہوتا ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے سیاست اور سماج کو چلانے کے عمل میں حصہ لے۔

یعنی مزدور ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو جائے گی۔ کیونکہ جہاں طبقات ہی نہیں وہاں طبقاتی جبر کے آلات کی کیا گنجائش؟ طبقاتی کشمکش کی بجائے معاشرہ متحد اور منظم ہوگا اور شعوری طور پر اپنی تقدیر کی منصوبہ بندی کرے گا۔

جہاں کبھی ایک جابرانہ ریاستی ڈھانچہ کھڑا تھا، وہاں حقیقی جمہوریت کے تحت سماجی ضروریات اور پیداوار کا انتظام کرنے والا منظم محنت کش باقی رہ جائے گا۔ یہ کمیونزم کی تکمیل ہوگی، طبقاتی سماج کے طوق سے انسانیت کی نجات۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.