سوشلسٹ انقلاب ہی عورت کی نجات کا ضامن ہے!

|تحریر: سلمیٰ ناظر|

پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ محنت کش طبقے کے لیے ایک بھیانک جہنم بنتا جا رہا ہے۔ سچ کہیں تو یہاں جہنم کا لفظ بھی بہت ہیچ معلوم ہوتا ہے جہاں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد، خواتین، نوجوان اور بچے جینے کی تگ و دو میں روز مرتے ہیں۔ مارکس نے کہا تھا، ”ایسے سماجی نظام کی بنیادوں میں یقینا کوئی خرابی موجود ہے جو اپنی دولت میں تو اضافہ کرے مگر اپنی تکلیفوں میں کوئی کمی نہ کر پائے“۔ مارکس کے یہ الفاظ سرمایہ دارانہ نظام کی بالکل درست عکاسی کرتے ہیں۔ یہ نظام اس وقت مکمل طور پر گل سڑ چکا ہے اوراس کے جسم کی بدبو سے پورا سماج تعفن زدگی کا شکار ہے۔ اس سماج میں رہنا ایسا ہے کہ جیسے کسی انسان کو ایک انتہائی گندگی اور غلاظت سے بھرے گٹر میں پھینک دیا جائے، جہاں وہ انسان سانس بھی نہ لے سکے اور شدید بدبو سے اس کا دم گُھٹنے لگے اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وہیں مر جائے۔ اس نظام کے پاس بنی نوع انسان کو دینے کے لیے تکلیفوں، اذیتوں اور موت کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا۔ یہاں لوگ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنے بچوں تک کو فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

خاص طور پر اگر خواتین کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ کبھی خواتین اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں، کبھی انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے، کبھی عزت اور غیرت کے نام پر ان کی بلی چڑھائی جاتی ہے، کبھی خاندانی رنجشوں میں انہیں تشدد کا نشانہ یہاں تک کہ قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ اگر ہم خواتین پر تشدد کی اسی سال کی رپورٹیں دیکھیں تو سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے تیس اپریل 2023ء تک صرف اسلام آباد میں خواتین پر تشدد کے 771 اور بچوں پر تشدد کے 142 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان چار مہینوں کے دوران سندھ میں 529 خواتین اغوا کی گئی ہیں۔ دادو (سندھ) میں خاوند نے اپنی بیوی کو اس وجہ سے قتل کر دیا کہ اس نے بیٹی کو بیچنے کی کوشش پر اپنے خاوند کی مخالفت کی تھی۔ خاتون کا خاوند اس سے پہلے بھی اپنی دو بیٹیاں بیچ چکا تھا۔ پاکستان میں روز کی بنیاد پر خواتین پر تشدد، جنسی و صنفی ہراسانی، ریپ اور قتل کے جتنے واقعات رونما ہوتے ہیں اس تناسب سے درج بالا رپورٹیں آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔

ابھی حال ہی میں بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسانی کا انتہائی سوز ناک انکشاف ہوا ہے جس سے ان طالبات کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی ہیں۔ ان واقعات کے رونما ہونے پر کئی”دانشور “ یہ کہتے ہیں کہ خواتین کے گھر سے باہر نکلنے پہ پابندی لگائی جائے یا خواتین کو برقعہ پہننا چاہیے یا ”مناسب“ کپڑے پہننے چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کو گھر کی چار دیواری میں قید کرنے سے زیادتی، تشدد اور قتل کے واقعات ختم ہو جائیں گے؟ اگر خواتین برقعے پہننا شروع کر دیں تو وہ بالکل محفوظ ہو جائیں گی؟ یا اگر وہ ”مناسب“ کپڑے پہننا شروع کر دیں تو اس سماج میں پلنے والے گِدھوں سے بچ جائیں گی؟ ان تمام باتوں کا جواب ہمیشہ نفی میں ہے کیونکہ ان تمام اعمال کی وجوہات گھر، برقعہ اور ”مناسب“ کپڑوں سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام، نجی ملکیت اور پدرشاہی سے جڑی ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت اور خاص طور پر مرد کی جنس سے منسلک نجی ملکیت اور اس کی منتقلی عورت کو محض ایک نیا وارث پیدا کرنے اور اس کی پرورش کرنے تک محدود کر دیتی ہے۔ جس طرح ایک فرد کے لئے ایک اوزار کی اوقات کسی کام میں فعال کردار ادا کرنے تک محدود ہوتی ہے، وہ اس کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے کہ اسے جیسے مرضی استعمال کیا جائے اور اس اوزار کا فرد پر کوئی حق نہیں ہوتا اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام اور نجی ملکیت کی موجودگی میں ایک عورت پر بھی مرد کا اسی طرح سے مختلف سماجی بندھنوں اور کرداروں کے ذریعے”حق“ بنتا ہے اور اس کا کام اپنا یہ کردار ادا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ اگرچہ مغربی ممالک میں دہائیوں محنت کش طبقے کی تحریکوں اور سماجی شعور میں بڑھوتری کے نتیجے میں خواتین کو کچھ حقوق ملے ہیں لیکن آج سرمایہ داری کے خوفناک بحران میں یہ حقوق واپس چھینے جا رہے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی سماجی طور پر غلاظت کا ڈھیر اور معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ہے اس لئے یہاں عورت کا سوال اور اس سے جڑے تمام مسائل انتہائی مکروہ، تکلیف دہ اور عذاب زدہ شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس لئے ملکیت، طاقت اور ثانوی حیثیت کا اظہار شدید تعفن شدہ ہو چکا ہے۔

غیرت کے نام پہ قتل ہمارے معاشرے میں ایک معمول بن گیا ہے۔ سوات میں ایک خاوند نے اپنی بیوی کو خلع لینے پر گولی مار کر قتل کر دیا۔ اسی طرح کراچی میں بھی ایک چوبیس سالہ خاتون کو اس کے خاوند نے خلع کے مطالبے پر گولی مار کر قتل کر دیا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہی ایک باپ نے بیٹی کو پسند کی شادی کرنے پہ قتل کر دیا۔ صوابی میں ایک سات ماہ کی حاملہ خاتون کو اس کے خاوند اور سسر نے گھریلو رنجش کی بنا پر مار دیا۔ یہ رپورٹیں سرمایہ دارانہ سماج کے گھناؤنے چہرے کی عکاسی کرتی ہیں۔

یہاں لبرل ”دانشور“ خواتین و حضرات کی بات کریں تو وہ ہونے والے تشدد، ہراسانی، زیادتی اور قتل وغیرہ کے واقعات کے لیے فوراً اور واحد قصوروار مردوں کو ٹھہراتے ہیں۔ جیسے چند دن قبل ایک لبرل خاتون اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور میں طالبات کی ہراسانی سے متعلق انکشافات پر مذمت کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ، ”مردوں کو آداب سیکھائے جائیں کہ عورتوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے۔“ تو کیا مردوں کو آداب سیکھا دینے سے خواتین کے ساتھ زیادتی کی روک تھام ممکن ہے؟ کیا تشدد کے واقعات رونما ہونا بند ہو جائیں گے؟ کیا خواتین کو مختلف وجوہات کی بناء پر قتل نہیں کیا جائے گا؟ یقینا ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ ان تمام مسائل کی وجہ مرد کی ذات نہیں ہے۔ اس کی وجہ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ ہم سرمایہ داری اور نجی ملکیت سے جڑے پدر شاہانہ سماج میں رہتے ہیں جہاں مرد عورت پہ اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے کہ جس کے پاس طاقت اور اقتدار ہو وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ پھر چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ لبرل حضرات ان واقعات کو زیرِ بحث لاتے وقت سرمایہ دارانہ نظام، اس کے ساتھ نجی ملکیت کے تعلق اور سب سے بڑھ کر اس نظام میں طبقاتی بنیادوں پر سماجی تفریق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں رانی پور میں معصوم فاطمہ کے قتل کا دردناک واقعہ اور ایک جج کی بیوی کے ہاتھوں ملازمہ بچی پر تشدد اور قتل کا نہایت انسانیت سوز المیہ ہوا ہے، اس طرح کے دلخراش واقعات کے مسلسل چلتے آ رہے سلسلے کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم نے ایسے بے شمار واقعات رونما ہوتے دیکھے ہیں۔ ایسے کیسز میں زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ طاقتور اپنے روپے پیسے کی دھونس جما کر کمزور کو چپ کروا دیتا ہے یا قانون کے ذریعے مجرم اپنے جرم سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ بالآخر قانون کے جالے میں کمزور پھنس جاتا ہے جبکہ طاقتور اسے چیڑ پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جنسی و صنفی ہراسانی، تشدد، زیادتی اور قتل، یہ سب کن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے؟ یا کون لوگ ہیں جو کبھی بِل ادا نہ کر پانے کی وجہ سے، کبھی بھوک و افلاس کی وجہ سے، تو کبھی اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا نہ کر سکنے کے باعث خود کشی کر لیتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں یا انہیں فروخت کر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں؟ کیا ان لوگوں کا تعلق سرمایہ دار طبقے سے ہے؟ نہیں۔ ان کا تعلق مزدور طبقے سے ہے جبکہ دوسری طرف شاذ ونادر ہی دیکھا گیا ہے کہ سرمایہ دار طبقے کی خواتین کو کسی نے ہراساں کیا ہو، یا ان پر تشدد کیا گیا ہو، یا انہیں غیرت کے نام پہ قتل کیا گیا ہو، یا ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آتے ہوں۔ ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کبھی کسی سرمایہ دار نے اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کشی کر لی ہو، یا کبھی بھوک و افلاس سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو سولی پہ لٹکا دیا ہو۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ یہ تقسیم، یہ تفریق امیر اور غریب کی تفریق ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ ہے۔ جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام کا زوال بڑھ رہا ہے، توں توں طبقاتی خلیج بڑھتی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں امیر دن بدِن امیر تر ہوتا جاتا ہے اور غریب دن بدِن غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ ایک طرف جہاں سرمایہ دار طبقے کی دولت کے انبار میں اضافہ ہوتا جاتا ہے تو دوسری طرف محنت کش طبقے کی اذیتوں، تکلیفوں اور مصیبتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

لیکن آج ان تمام مصیبتوں اور محرومیوں میں جینا اور انہی میں بلک بلک کر اور سسک سسک کر ہر روز مرنا محنت کش طبقے کا مقدر نہیں ہو سکتا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پوری دنیا کو چلانے والا محنت کش طبقہ کبھی بھوک کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا کبھی سیلاب میں تنکے کی طرح بہہ جائے، یا کبھی مٹی کے ملبے میں دب کر مر جائے، یا کبھی قابلِ علاج بیماریوں کا علاج نہ کروا پانے کے باعث مر جائے جبکہ بازار ادویات سے بھرے پڑے ہوں، یا اپنے بچوں کو اس لیے موت کے گھاٹ اتار دے کہ ان کی ضروریات و خواہشات پوری نہ کر پا رہا ہو۔ بلکہ جس طرح محنت کش طبقہ اس دنیا کو چلانے کی طاقت رکھتا ہے تو اپنی قسمت اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اسے بدلنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ اب محنت کش طبقہ پوری دنیا میں اپنے حقوق کے لیے منظم ہو رہا ہے اور سرمایہ دارنہ نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اس کے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ محنت کش طبقے کے پاس اپنی بقا کا ایک ہی راستہ ہے کہ یہ پوری دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عالمی سطح پر سوشلسٹ نظام کی تعمیر کی جانب قدم بڑھائے۔

سوشلسٹ انقلاب ہی محنت کش طبقے کے لیے زندگی کا ضامن ہے جس میں عورت کے ذریعے عورت و مرد پہ جبر اور مرد کے ذریعے عورت و مرد پر جبر کا خاتمہ ممکن ہے۔ سوشلسٹ نظام میں ہی انسان بھوک، ننگ، تشدد، زیادتی، قتل و غارت، لاعلاجی، خود کشی سمیت تمام سماجی و معاشی لعنتوں اور برائیوں سے نجات پا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.