اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور: نئے داخلے اور روایتی طلبہ دشمنی کی نئی مثال

|تحریر: فرحان رشید|

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جو کہ ویسے بھی اپنی انتظامی سختیوں کے سبب طلباء کیلئے قیدخانے کی حیثیت رکھتی ہے، نے امسال 2018 کے داخلہ جات میں ایک اور طلباء دشمن قدم یہ اٹھایا ہے کہ تھرڈ ڈویژن کے ساتھ امتحانات پاس کردہ کوئی بھی طالبعلم یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا اہل نہیں ہے۔ 
بہاولپور اور اس کے نواحی علاقہ جات جو پسماندہ ترین علاقہ جات میں سے ایک ہیں وہاں کے غریب محنت کش جن کے لیے پرائیویٹ ادارہ جات کی لاکھوں روپے سالانہ فیسیں ادا کرنا عنقا ہے اور سوائے جامعہ اسلامیہ کے اور کوئی ایسا ادارہ میسر نہیں جہاں معیاری تعلیم کا حصول قدرے قابلِ برداشت داموں میں ممکن ہو۔ گو آج کے عہد میں تعلیم کسی عیاشی سے کم نہیں اور یہاں کے لوگوں کیلئے اعلیٰ ثانوی تعلیم ایک سہانا خواب ہے۔ ایسے ماحول میں غریب طلباء اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کی خاطر مشقت اور مزدوری کرنے کے ساتھ کسی طرح تعلیم جاری رکھتے ہیں اس آس کے ساتھ کہ شاید کوئی اچھی ڈگری حاصل کرکے اتنا روزگار حاصل کرلیں کہ ان کا چولہا جلتا رہے۔ 
اس سب مشقت کے باوجود کہ سارے خاندان کی کفالت کرکے بھی اگر ایک طالبعلم پاس ہوجاتا ہے (خواہ تھرڈ ڈویژن سے ہی سہی) تو یہ یقیناً ایک حیران کن امر ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اسے آگے کی تعلیم دینا گورنمنٹ کا فرض ہے مگر اب ان سے یہ سہولت بھی چھینی جارہی ہے۔
یونیورسٹی کے کچھ پروفیسروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں جن طلباء جات نے تھرڈ ڈویژن کے باوجود داخلہ حاصل کر بھی لیا تھا، اب ظلم کا یہ پہاڑ توڑا جارہا کہ ان سب داخل شدہ تھرڈ ڈویژنز طلباء کی لسٹیں تیار کرکے رجسٹرار آفس منتقل کی جاچکی ہیں اور اگلے چند روز میں وائس چانسلر کا ان کو بھی خارج کرنے کے متعلق فیصلہ ممکن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ان طلباء کے ساتھ سراسر ظلم اور ذیادتی ہوگی اور یہ قابلِ مذمت فعل ہے۔

اس کے بعد اگر ہم جامعہ کے دیگر مسائل کا ذکر کریں تو طلباء کی گذشتہ ہڑتال جو گارڈز کے تشدد کے خلاف طلباء نے کی تھی کی پاداش میں اور طلباء پر دباؤ قائم رکھنے کی غرض سے 6 طلباء کو اب تک فیل کیا جاچکا ہے اور طلباء اس کے خلاف عدالتوں میں بھی جاچکے ہیں۔ یہ سب انتظامیہ کی جانب سے چھٹیوں کے دوران کیا گیا ہے تا کہ کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے بعد بھی گارڈز نے ایک طالبعلم پر تشدد کیا جس پر طلباء کے خوف سے انتظامیہ نے ذیشان نامی گارڈ کو معطل کردیا اور اس طرح طلباء کا غصہ ٹھنڈا کیا گیا۔ 

اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یونیورسٹی میں نشستوں کی کمی ہے جہاں پر محدود نشستوں کے حصول کیلئے ہزاروں طلباء اپلائی کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وقت کی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے اس تعداد کو بڑھایا جائے۔ 
طالب علم کے لیے اپلائی کرنے کے چارجز ایک پروگرام میں ایک ہزار ہیں، اگر کسی طالب علم نے ایف ایس سی میڈیکل کیا ہو تو وہ پانچ پروگرام کے لیے اپلائی کرسکتا ہے. 
1 ۔فارمیسی 
2 ۔ایگرکلچرل
3۔لائف سائنس 
4 ۔بائیو ٹیکنالوجی
5 ۔کمیسٹری
تو اس طالبعلم کو پانچ ہزار اپلائی کرنے کے لیے ادا کرنا پڑتے ہیں کیونکہ طالبعلم میرٹ کے بارے میں غیر یقینی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے، اسی خدشے کے تحت وہ پانچ پروگرامز میں اپلائی کرتا ہے تاکہ کسی ایک پروگرام میں نام آجائے۔ اس ایک ہزار روپے کے بدلے میں طالب علم کو پراسپیکٹس دینا تک گوارہ نہیں کیا جاتا۔ پراسپیکٹس اس لیے نہیں دیا جاتا تاکہ طالب علم اصول و ضوابط کے بارے میں جان نہ سکیں اور انتظامیہ اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر قانون کا اطلاق کرواسکے۔ ایک اور بہت بڑی بے ضابطگی طالب علم کا داخلہ لینے سے پہلے پرویثنل میرٹ لسٹ کا لگنا ہے۔ اس لسٹ کے مطابق طالب علم اپنے اصل اسناد کی تصدیق کے لیے متعلقہ شعبہ میں جاکر داخلہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوتا ہے۔اب ایک طالب علم پانچ پانچ شعبوں کے چکر لگاتا رہتا ہے اور اس بات کا کوئی ریکارڈ طالب علم کو نہیں دیا جاتا کہ آیا اس کے کوائف تصدیق کر لیے گئے ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے طور پر مطمئن ہو کر گھر چلا جاتا ہے۔ لیکن جب حتمی میرٹ لسٹ لگائی جاتی ہے تو میرٹ پر آنے والے طالب علموں کا نام نہیں آتا اور اس کے برعکس لسٹ پر کم نمبروں والے طالب علم کا نام آجاتا ہے۔
اب یہاں سے ایڈمیشن سیل آئی ٹی اور متعلقہ شعبے کے درمیان طالب علم فٹ بال بن کر رہ جاتا ہے۔ جہاں وہ دن میں دس دس دفعہ کبھی شعبے کے چکر لگاتا ہے اور کبھی ایڈمیشن سیل آئی ٹی کے۔ لیکن دونوں طرف سے جھوٹی امیدیں اور تسلیاں دی جاتی ہیں کہ دوسری اور تیسری لسٹ میں نام آجائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ طالب علم سے آئی ٹی سیکشن والے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں اور کوئی چارہ جوئی نہیں ہوتی ہے۔
سپرنگ 2018 میں بی ایس کامرس کے پانچ طالب علموں کو اسی طرح داخلہ دے دیا گیا، کیونکہ ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق وہ پانچ طالب علم اپنی اسناد تصدیق کروا کر گئے تھے۔ شعبہ کامرس کی انتظامیہ نے انکو داخلے کا چالان دے دیا۔ لیکن داخلے کے اگلے مرحلے میں سی ایم ایس آئی ڈی کے لیے جب ان پانچ طالب علموں کے کوائف ڈایریکٹر آئی ٹی کو ارسال کیے گئے تو ان کے کوائف ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے۔اس عرصہ تک طالب علموں نے مڈ ٹرم امتحان دے دیا تھا۔ لیکن فائنل امتحان سے ایک ہفتہ قبل شعبہ کی جانب سے طلبہ کو کہا گیا کہ فائنل امتحان نہیں دے سکتے اور آپکا داخلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ داخلہ منسوخی کا نوٹس بھی ان طلبہ کو نہیں دیا گیا کہ کہیں یہ قانونی چارہ جوئی نہ کر سکیں اور عام تاثر یہی دیا جائے کہ یہ طالب علم خود ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ انتظامیہ نے ابھی تک انکی فیس ری فنڈ نہیں کی کیونکہ فیس ری فنڈ کے لیے داخلہ منسوخی کا نوٹس لازمی ہوتا ہے جو طلبہ کو فراہم ہی نہیں کیا گیا۔ یہی حربہ اس دفعہ پھر کھیلا جائے گا۔ اس دفعہ پھر پرویثنل لسٹ کا قانون لاگو کردیاگیا ہے جو داخلے میں بے ضابطگی پیدا کرنے کا سبب بنے گا اور انتظامیہ آرام سے کرپشن کر سکے گی۔
جہاں گارڈز کے تشدد اور داخلوں کی بے ضابطگیوں کے مسائل موجود ہیں وہاں پروفیسروں کی رشوتوں، لڑکیوں کو حراساں کیے جانے اور انتظامیہ کی گماشتہ تنظیم انجمن طلباء اسلام کی غنڈہ گردی بھی زوروں پر موجود ہے۔
ان سب مسائل کے خلاف اگر طلباء آواز اٹھائیں بھی تو آغاز میں ہی زور زبردستی سے دبا دی جاتی ہے، اگر طلباء اس طرح بھی باز نہ آئیں اور اپنے حق کیلئے احتجاج کا رستہ اختیار کریں تو پھر گماشتہ جماعت انجمن طلباء اسلام انتظامیہ کی ہر طرح سے مدد کرتی ہے خواہ وہ عام طلبہ کے احتجاج پر حملہ ہو یا احتجاج کو غلط سمت میں لے جانا (انتظامیہ کے مفاد میں) یا پھر طالبعلم کو یونیورسٹی سے ہی خارج کردیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی بات کی جائے تو یونیورسٹی میں ایسی کوئی فضا موجود نہیں ہے اور ہزاروں کی تعداد میں طلبا کی حامل یونیورسٹی کا اپنا کوئی ادبی یا سائنسی مجلہ موجود نہیں ہے نہ ہی ڈرامیٹک کلب موجود ہے۔ غیر نصابی سرگرمیاں بھی کچھ شعبہ جات اپنی مدد آپ کے تحت کرواتے ہیں۔
اس سب حالات کو دیکھتے ہوئے طلبا انتظامیہ سے بے پناہ نفرت کے باوجود اپنا حق لینے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے جس کا واحد سبب طلبہ یونین پر باپندی ہے۔ جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہوتی طلبا اپنا حق لینے کیلئے اکٹھے نہیں ہو سکتے اور اکٹھا ہوئے بغیر انتظامیہ کبھی بھی انہیں انکے جائز حقوق نہیں دے گی۔ اسکے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر طلبا اپنا حق حاصل کرنا چاہتے ہیں، انتظامیہ کی اس غنڈہ گردی اور حق تلفی کے تمام اقدامات کا تدارک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ان کو کسی یونیورسٹی انتظامیہ کی گماشتہ تنظیم کی بجائے اپنی تنظیم بنانا ہوگی وگرنہ یہ بھیڑچال طلبہ کو مزید کمزور اور انتظامیہ کو مزید ایسے اقدامات پر اکساتی رہے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.