بلوچستان: ریاست کا بڑھتا جبر اور عوامی مزاحمت

|تحریر: حئی بلوچ|

گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جو نوجوان بالخصوص بلوچ طلبہ کے لئے توجہ کا باعث بنی، جس میں نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم کو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاکستانی خفیہ اداروں کے کارندے جبری طور پر اٹھا رہے ہیں۔ سیاسی کارکنان، طلبہ اور ترقی پسند افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرنا پاکستان میں معمول بن گیا ہے اور اس جابرانہ عمل کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہو گی۔

اسی طرح رواں ماہ بلوچستان کے علاقے چاغی میں واقع پاک افغان بارڈر پر ریاستی مسلح جتھوں کی جانب سے ڈارئیورز کو قتل کردیا گیا اور گاڑیاں خراب کرکے دوسرے معصوم لوگوں کو صحرا میں مرنے کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ دل سوز واقعہ ہی واضح ثبوت ہے کہ ریاست کا حقیقی چہرا کتنا خونخوار ہے۔ ان پر بات کرنا تو کجا مسنگ پرسنز کے حوالے سے جمع شدہ دستاویزات بھی انسانی حقوق کے چئیر پرسن کے دفتر سے لاپتہ کر دی جاتی ہیں۔ اگر ان ریاستی اداروں کے اپنے اعداد و شمار کو دیکھا جائے جو کہ کسی بھی طرح حقیقت پر مبنی نہیں، تو بھی انسانیت سوز صورت حال سامنے آتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق صوبہ بلوچستان سے 1108 افراد لاپتہ ہوئے ہیں جن کا آج تک کوئی پتا نہیں، خیبرپختونخوا سے 1417 کیسز تاحال شنوائی کے منتظر ہیں، اسی طرح صوبہ سندھ میں بھی کئی افراد لاپتہ کردیے گئے ہیں۔

لاپتہ افراد کا معاملہ ریاست پاکستان میں کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن سب سے زیادہ گمشدگی کے شکار افراد خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

مظلوم قومیتوں پر جبر کے یہ بڑھتے ہوئے واقعات اس سرمایہ دارانہ ریاست اور حکمران طبقے کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں۔ آج سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں سوائے بھوک، غربت، موت اور بیروزگاری کے کچھ نہیں دے سکتا لہٰذا ایسی صورت حال میں پوری دنیا کا حکمران طبقہ جبر کے ذریعے اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسے لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ”ریاست جتنی کھوکھلی ہوتی جاتی ہیں اتنا ہی ریاستی جبر شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔“ اسی طرح پاکستانی ریاست جتنی لاغر و کمزور ہوتی جارہی ہے اتنا ہی محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ مظلوم قومیتوں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں بھی اضافہ کرتی جارہی ہے۔

مختصر اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ عناصر یا واقعات اس نظام کے بحران کی واضح علامات ہیں، اور یہ دلیل ہیں کہ مزید یہ نظام محض جبر کے ذریعے ہی چل سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں اپنی دولت کے تحفظ کیلئے حکمران انسانی خون سے اپنی عمارات رنگ رہے ہیں اور اس سے وضو کررہے ہیں۔ یہ عمل مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔ دوسری طرف اس بحران کے نتیجے میں حکمران طبقے کی آپسی لڑائیوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور سرمایہ دارانہ نظام کی محدودیت اور اس کے رکھوالے حکمرانوں کا گھناؤنا چہرہ نوجوانوں اور محنت کشوں کی اکثریت کے سامنے عیاں ہوتا جائے گا، اور انہیں ان کے خلاف بغاوت پر اکسائے گا۔

اسی طرح یہ واقعات قوم پرست قیادتوں کے عوام دشمن کردار اور سامراجی جرائم میں حصہ داری کو بھی نوجوانوں کی بڑی اکثریت کے سامنے عیاں کر رہے ہیں۔ یہ قوم پرست ایک طرف تو ”اقتدار کے ایوانوں“ میں مسنگ پرسنز کی بازیابی کے مطالبے کرتے ہیں تو دوسری جانب جرنیلوں کے عہدوں میں توسیع کرنے کے حق میں بڑے جوش و خروش سے ووٹ بھی ڈالتے ہیں، جو ان کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسائل کی سمجھ بوجھ رکھنے سے عاری اقتدار کے بھوکے تنگ نظر قوم پرست جماعتوں کے قائد ہمیشہ اسمبلی ہال میں لاپتہ افراد اور مظلوم قومیتوں کا کارڈ اس لیے کھیلتے ہیں کہ حکمرانوں کی جاری آپسی نورا کشتی میں اپنا حصہ لے پائیں یعنی بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھونا ہی ان کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ یہ ”قائدین“ اسٹیبلشمنٹ کے مختلف گروہوں کی آپسی لڑائی میں جب اسمبلی ہال میں رونے دھونے کا کرتب پیش کرتے ہیں تو سب کیلئے تفریح کا خاصا سامان مہیا کر دیتے ہیں۔ جوں جوں ان واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، اسی رفتار کے ساتھ محنت کش عوام اور نوجوانوں کے سامنے یہ نوٹنکی باز بھی ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں۔

جبر کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود مزاحمت کی مشعل روشن ہے اور ان ظالمانہ اقدامات کیخلاف مظاہرے، احتجاج اور جدوجہد جاری ہے۔ گوادر کو حق دو تحریک، حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل کیخلاف عوامی ردعمل، پنجگور میں احتجاج کے ذریعے سے ایف سی اہلکاروں کے منہ سے ایک نوجوان کو جبری لاپتہ ہونے سے بچانے سمیت دیگر بہت سی تحریکیں اور واقعات اس کی شاندار مثالیں ہیں۔ اول الذکر تحریکوں کی تمام تر محدودیت اور خامیوں کے باوجود یہ ریاست کو کسی حد پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

پنجگور میں ہونے والے واقعہ کی مکمل رپورٹ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ طبقاتی بنیادوں پر استوار عوامی مزاحمت ہی ریاستی جبر سے مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ جبکہ یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ مسلح جدوجہد کا طریقہ عوامی جدوجہد کی جگہ نہیں لے سکتا بلکہ عوامی جدوجہد سے الگ ہو کر کی جانیوالی مسلح کاروائی ہمیشہ ریاست کو مضبوط کرتی ہے اور ریاست کے وحشیانہ جبر کو شدت سے لاگو کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ مارکس کے الفاظ میں ”محنت کش طبقے کی نجات صرف اور صرف محنت کشوں کی اپنی اجتماعی جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے۔“ اس لئے اگر ہم کسی بھی خطے کے مظلوم و محکوم عوام اور محنت کشوں کی نجات کے لئے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں جدوجہد کا وہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا جس کے ذریعے ان محنت کشوں اور نوجوانوں کی اکثریت کی اس جدوجہد میں شمولیت یقینی بن سکے۔ اگر کسی خطے میں مسلح جدوجہد عوام کی اکثریت کو ان مسلح کاروائیوں سے کنارہ کشی کی جانب لے جاتی ہے تو ایسی جدوجہد انقلابی کی بجائے ردِانقلابی کردار کی حامل ہوجا تی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس مسلح جدوجہدمیں شامل آزادی پسند اپنی تمام تر دیانت داری کے باوجود عوام کے نجات دہندہ بننے کی بجائے ان پر مزید ریاستی جبر کا باعث بنتے ہیں۔ اور دوسری جانب ہمیں سمجھنا چاہیے یہ ریاستی جبر کی بنیادیں منافع پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں لہٰذا نظام کو ختم کیے بغیر یہ ممکن نہیں۔ انقلاب روس کے عظیم رہنما ٹراٹسکی کے الفاظ میں:

”ہم انفرادی دہشتگردی کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ انفرادی انتقام ہمیں تسکین نہیں پہنچاتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہمیں جو حساب چکتا کرنا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اسے ایک سرکاری دلال جسے وزیر کہتے ہے پورا نہیں کرسکتا۔ انسانیت کے خلاف تمام جرائم کو ہوتے ہوئے دیکھنا، وہ تمام تذلیل جو انسانی جسم اور روح کے ساتھ کی جاتی ہے، اسے موجودہ معاشرے کے اظہار کے طور پر سمجھنا اور اپنی تمام توانائیوں کو موجودہ نظام کے خلاف جدوجہد میں اکٹھا کرنا! یہی وہ راستہ ہے جس پر انتقام کے بھڑکتے ہوئے جذبات اپنی اعلیٰ ترین تسکین پاسکتے ہیں۔“

مختصراً سرمایہ دارانہ نظام تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے جس کا اظہار سری لنکا، روس-یوکرین جنگ، امریکہ -چین تنازعہ سمیت کئی صورتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی محنت کش طبقے کی حالت بد تر ہوتی جا رہی ہے اور بھوک، بیماری، لاعلاجی اور بیروزگاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ سینکڑوں لوگ بھوک اور بیماری کے باعث مر رہے ہیں جبکہ حکمران طبقہ پر تعیش زندگیاں گزار رہا ہے اور اپنی لوٹ مار میں اضافہ کرتے ہوئے مزید لاکھوں لوگوں کو غربت، ذلت اور محرومی کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنے جبر میں بھی اضافہ کرتے ہوئے بنیادی حقوق کے لیے اُٹھنے والی ہر آواز کو کچلنے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

پاکستانی ریاست اپنی وجود میں ہی ایک غیر فطری اور امریکہ سمیت مختلف سامراجی ممالک کی گماشتہ ریاست رہی ہے اور اسی وجہ سے اس کی معیشت مختلف سامراجی ممالک کے رحم و کرم پر رہی ہے۔ لیکن اب یہ سامراجی ممالک خود شدید بحران کی زد میں ہیں۔ جس کا اندازہ، امریکی سامراج کے افغانستان سے انخلاء سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی سبب پاکستانی ریاست آئی ایم ایف کی ایما پر نجکاری، بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور کٹوتیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ملک کے سرمایہ داروں اور فوجی اشرفیہ کی عیاشیوں کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈال رہی ہے۔ حکمران طبقے کے ان تمام تر حملوں کے خلاف پوری دنیا کے اندر محنت کش طبقے کی تحریک ابھرتی نظر آ رہی ہے جس کے اثرات سے پاکستان بھی نہیں بچ پایا ہے اور آئے دن محنت کشوں کے شاندار احتجاج و دھرنے دیکھنے میں ملتے ہیں جس میں آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) سے لے کر بلوچستان میں بیوگا کے دھرنے تاریخی مثال ہیں۔ لیکن اصل سوال انقلابی قوتوں کی تعمیر کا ہے۔ جب تک محنت کش طبقے کی ایک انقلابی پارٹی موجود نہیں ہو گی تب تک ریاستی جبر سمیت معاشی جبر سے نجات پانا ناممکن ہے۔ نجات پانے کے لیے اس نظام کو گرانا ناگزیر ہے اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں مزدور ریاست قائم کر کے ہی قومی جبر سمیت دیگر تمام مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل نکالا جا سکتا ہے۔ اس لیے مظلوم قومیتوں کی تحریکوں کو مزدور تحریک کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس جابر نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، جس کیلئے ایک واضح پروگرام کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ہم درج ذیل انقلابی پروگرام پر تمام نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس انقلابی جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہیں۔

1۔ انقلابی آئین ساز اسمبلی کا قیام
محنت کشوں کے حقیقی نمائندوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کا قیام جو منتخب عوامی پنچایتوں کے جمہوری کنٹرول پر مبنی ایسے معاشرے کو تشکیل دے جس سے تمام عوام کو انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی ہو سکے۔

2۔ محنت کش عوام
افراط زر سے منسلک تمام محنت کشوں کی تنخواہ کم از کم ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے اور تمام بنیادی سہولتوں کی عوام کو مفت فراہمی۔ ہفتہ وار کام کے اوقات کار کو 35 گھنٹے کرکے ہر مزدور کو ہفتہ وار دو چھٹیاں ہوں۔ چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ۔

3۔ صنعت و معیشت
نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کا مکمل خاتمہ۔ تمام قومی اور سامراجی اثاثوں کو ضبط کرکے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول اور انتظام میں دینا۔ تمام سامراجی قرضوں کی واپسی سے انکار۔ سامراجی جبر کے خلاف جدوجہد کو ناقابل مصالحت طبقاتی بنیادوں پر منظم کر نا۔

4۔ غریب کسان
تمام جاگیروں کی مزارعوں میں تقسیم۔ اجتماعی کاشتکاری کا فروغ اور جدید تکنیکی بنیادوں پر زرعی انقلاب۔

5۔ نوجوان
روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بے روزگاری کی صورت میں کم از کم 25 ہزار روپے بے روزگاری الاؤنس۔ طبقاتی نظام تعلیم کا مکمل خاتمہ اور تمام سطحوں پر مفت تعلیم۔ طلبہ یونین سازی پر عائد تمام پابندیوں کا فی الفور خاتمہ۔ سولہ سال کی عمر میں ووٹ کا حق۔

6۔ خواتین
تمام رجعتی اور کالے قوانین کا مکمل خاتمہ۔ محنت کش خواتین کو تمام شعبوں میں مساوی حقوق اور نمائندگی۔ زچگی کے دوران مکمل تنخواہ سمیت چھ ماہ کی رخصت۔ گھریلو اور صنعتی محنت میں تفریق کا خاتمہ۔

7۔ مذہبی اقلیتیں
مذہبی اقلیتوں کو برابری کے حقوق۔ سماجی و ثقافتی تعصب اور جداگانہ طریق انتخاب کا خاتمہ۔ ریاست کو مذہب سے الگ کرنا۔

8۔ قومی مسئلہ
مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا اور قومی آزادی کی تحریکوں کو طبقاتی جدوجہد سے منسلک کرتے ہوئے برصغیر کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام جو تمام قومی و ثقافتی حقوق کی ضامن ہو۔

9۔ فوج
فوج میں کمیشن سسٹم کا خاتمہ۔ افسران اور سپاہیوں کی مساوی تنخواہیں اور مراعات۔ تمام افسران کا سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے انتخاب۔ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کا خاتمہ۔

10۔ خارجہ پالیسی
خارجہ پالیسی کی طبقاتی بنیادوں پر استواری۔ افغانستان سمیت دنیا کے دوسرے ممالک میں مداخلت اور رجعتی ملاؤں کی حمایت کا خاتمہ۔ سامراجی گماشتگی اورقومی شاونسٹ طرز کی خارجہ پالیسی کو مسترد کرنا۔ محنت کشوں کو بین الاقومی تحریک سے منسلک کرتے ہوئے عالمی سوشلزم کی جدوجہد کو تیز کرنا۔

سامراج مردہ باد!
ریاستی جبر مردہ باد!
سوشلزم زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.