|تحریر: مشعل وائیں|
کالج اور یونیورسٹی کی زندگی کے متعلق بہت سے افسانے اور ناول موجود ہیں اور نوجوانوں کی اکثریت کا خیال ہوتا ہے کہ وہ جب یونیورسٹی کی زندگی میں قدم رکھیں گے تو ایک رنگین زندگی کا آغاز ہو گا جس میں نہ کوئی دکھ ہو گا اور نہ کوئی غم بس ہر طرف رونق ہی رونق ہو گی۔ یہ زندگی سننے میں بہت سہانی لگتی ہے لیکن آج کے حالات میں یہ ایک ڈراؤنی حقیقت بن چکی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں کالج میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد بہت کم ہے۔ بد قسمتی سے پچاس فیصد سے زائد بچے تو سکول کی شکل بھی نہیں دیکھ پاتے۔ ان میں سے گنے چنے طالب علم ہیں جو یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کرپاتے۔ ہم طبقاتی نظام میں جی رہے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ سماج میں مختلف طبقات کے لیے مختلف تعلیمی ادارے ہیں اور مختلف طبقات کے تعلیمی اداروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج کالج کا ہر طالب علم ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا انٹری ٹیسٹ پاس ہوجائے اور اسے کسی طرح گورنمنٹ یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے، مگر ایک محدود تعداد میں سیٹوں کی وجہ سے یہ خواہشیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ کچھ طلبہ ایگریگیٹ میں چند نمبروں کی کمی کی بنا پر خود کشی کر لیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ گھر بار سب بیچ کر بچے کو پرائیویٹ میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں کہ چلو بچہ ڈاکٹر بن کر مال دار ہوجائے گا اور ایک کی جگہ دو گھر بنا لے گا۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے؟ اگر کبھی کسی طالب علم سے پوچھا جائے کہ وہ ڈاکٹرکیوں بنناچاہتا ہے تو جواب یوں ملے گا کہ اس لیے کے ڈاکٹروں کی تنخواہیں لاکھوں سے سٹارٹ ہوتی ہیں۔ اب یہ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس نظام میں ڈگری لے کر جب نوکری کے لئے جا ئیں تو معلوم ہوتاہے کہ10-15 ہزار کی نوکری ملنا بھی مشکل ہے اور لاکھوں روپے لگاکر ڈاکٹر بننے والے کے لئے روزگار حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ آخر میں آکر پھر ہمیں نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان نظر آتا ہے۔ اور اگر یوں ہی رہا تو حالات مزید خراب ہونے کی طرف جائیں گے۔
دوسری طرف اگر ہم ایک طالب علم کی اپنی صورتحال دیکھیں تو وہ بھی ہمیں اچھی نہیں نظر آتی۔ جیسے ہی طالب علم اپنے ہی ادارے میں قدم رکھتا ہے تو گیٹ پر وردی میں کھڑے گارڈ اس سے تحقیر آمیز انداز میں بات کرتے ہیں۔ اس کے بستے کی چیکنگ کی جاتی ہے کہ کہیں کوئی سلیبس سے ہٹ کر ’غیر ضروری‘ کتاب یا کوئی اور چیز تو نہیں موجود۔ ایک تو سٹوڈنٹ ان سکیورٹی گارڈز کے ڈر میں رہتا ہے اور اندر جا کر اساتذہ کا رعب الگ۔ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں ہر شخص دبانے کی کوشش کرتا ہے، بتانے کے لیے کہ تم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈر کر چپ رہو اور جب کوئی بڑا واقعہ کسی کے ساتھ پیش آتا ہے تو وہ تب بھی چپ رہتا ہے۔
دوسری طرف ہمیں یونیورسٹیوں میں مختلف تنظیمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جو کہ بس طلبہ کو اتنے میں ہی الجھا کے رکھتی ہیں کہ کس سے بات کر نی ہے کس سے نہیں، کس جگہ پر کھڑے نہیں ہونا، کیا پہننا ہے کیا نہیں، اور اتنی سی باتوں کی نا فرمانی کرنے پر طلبہ پر جبر کیا جاتا ہے اور بھاری جرمانہ عائد کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ لیکن تمام تعلیمی اداروں کی یہ صورتحال نہیں ہے۔ ہمیں یہ صورتحال صرف سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نظر آتی ہے۔ اگر ہم نجی تعلیمی اداروں کی جانب جائیں وہاں ایک مختلف ہی دنیا پائی جاتی ہے، ایک طرف جہاں ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں طالب علم کو ایک کام کرنے پر یونیورسٹی سے نکالنے کی دھمکی دی جارہی ہے دوسری جانب ایک اپر کلاس کے تعلیمی ادارے کے بچے کو وہی کرنے پر شاباش دی جا رہی ہے۔ جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخصوص پرت ہے جس کے سا تھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔
طلبہ کے مسائل یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ پھر سمسٹر سسٹم کا رولا، اس میں مڈ ٹرم امتحان، کوئز،اسائینمنٹس وغیرہ جیسے مسائل تا کہ طلبہ فرسودہ نصاب تعلیم سے ہٹ کر کچھ سوچ ہی نہ سکیں۔ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے بعد اپنے بنیادی جمہوری حقوق کا ادراک حاصل کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر یونیورسٹی سے نکالے جانے کی دھمکیاں آج معمول بن چکی ہیں۔ اسی باعث طلبہ خاص طور پر طالبات چپ چاپ صرف اپنی پڑھائی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ان کے آنکھوں کے سامنے ان کا بنیادی جمہوری حق مارا جا رہا ہے پھر بھی خوف سے وہ اس پر بات نہیں کرتی۔
ملک میں نیا بجٹ پیش ہوچکا ہے جس میں اعلیٰ تعلیم کے لیے محض28.64ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ہے اور یہ رقم ہمیں گزشتہ سال کی نسبت آدھی نظر آتی ہے۔ اب یہ بات دیکھنے میں تو بہت سے طلبہ کو معمولی لگ رہی ہے مگر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ بجٹ میں اس کٹوتی کے بعد ایچ ای سی اپنے تمام سکالرشپس کا خاتمہ کر رہی ہے، اس کے علاوہ فیسوں میں دوگنا اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، اور دوسری طرف طلبہ کی سیٹوں کی کمی ہوجائے گی۔ پنجاب یونیورسٹی، جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے، میں 27 پی ایچ ڈی اور 33 ایم فل پروگرامز بند کیے جا رہے ہیں۔ بظاہریہ بھی بالکل نارمل بات لگ رہی ہے لیکن آگے آگے تمام ڈیپارٹمنٹس تمام یونیورسٹیز میں ایسی صورتحال نظر آئے گی۔ ایک طرف تو تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو کہا گیا ہے کہ چندہ اکٹھا کر کہ یونیورسٹیاں چلائیں اور تعلیمی بجٹ میں بھی بھرپور کمی کی گئی ہے۔ اب پنجاب یونیورسٹی کو ہی دیکھ لیں، پنجاب کی سب سے کم فیس والی یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے اس لیے ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں داخلہ مل جائے۔اور یہ سرکاری یونیورسٹی ہے، لیکن ایک محنت کش کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوا سکے۔ اب اگر ایک مزدور کی تنخواہ 17500 ہے، جو کہ نئے بجٹ میں تجویزکردہ کم از کم تنخواہ ہے اور ایک یونیورسٹی کی فیس 25000 ہے جو کہ ایچ ای سی کے اعلان کے مطابق بڑھ کر 50000 ہو جاتی ہے تو ایک عام انسان کہاں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتا ہے۔ اب سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی ہمیں ایک درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے کے زیادہ تر طالب علم نظر آتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسی سماج کا محنت کش طبقہ سرے سے تعلیم ہی حاصل نہیں کر سکتا۔
تعلیمی اداروں میں سہولیات میں بھی مسلسل کمی کی جارہی ہیں۔ حال ہی میں گجرات یونیورسٹی نے نوٹس جاری کیا ہے کہ نئے سیشن کو بسوں کی سہولت نہیں فراہم کی جائے گی۔ گجرات یونیورسٹی میں پہلے ہی ہاسٹلز کی تعداد انتہائی کم ہے اور قریبی علاقوں کے طلبہ کو ہاسٹل کی سہولت نہیں فراہم کی جاتی جس کی وجہ سے انہیں روز آنا جانا پڑتا ہے۔اب اس کا خرچ بھی انہیں خود اٹھانا پڑے گا اب اتنے اخراجات دیکھ کر تو ایک عام شخص کہیں سے یہ افورڈ نہیں کرتا کہ اس کے بچے یونیورسٹیوں میں جائیں۔
یونیورسٹیوں میں موجود طلبہ و طالبات بھی سکون کی زندگی نہیں گزار رہے۔ ہراسمنٹ، ٹرانسپورٹ کی کمی، فیسوں میں اضافہ اور دیگر مسائل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اگر کوئی طالب علم اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے یونیورسٹی سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ بہت سے تعلیمی اداروں میں طلبہ کا سپورٹس گالا بین کر دیا گیا ہے تاکہ طلبہ کسی طرح سوشلائیز نہ ہو سکیں۔ سمسٹر سسٹم کے جبر اور اسائینمنٹس وغیرہ میں بے جا اضافہ کر دیا گیا ہے تاکہ فارغ ہو کر کوئی اپنے حالات پر نظر نہ ڈال سکے۔ ایک طالب علم کا اپنی ہی یونیورسٹی کے کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں جانا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ کسی مسئلے کو مسئلہ کہنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اور اتنی سی بات پر شو کاز نوٹس اور قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس سماج میں ہم جی رہے ہیں جہاں چھوٹی بچیوں کا ریپ کر کے ا نہیں قتل کردیا جاتا ہے اور بعد میں کہا جاتا ہے کہ اس کے کپڑے ایسے تھا، اس نے اشارہ کیا ہوگا۔ سماجی پراگندگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں بھی طالبات کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اس پر آواز اٹھانے کے باعث اساتذہ انہیں جان بوجھ کر مسلسل فیل کرتے ہیں اور اس کے باعث ہمیں خود کشی کے واقعات بھی نظر آئے ہیں۔ لیکن چپ کر کے بیٹھنے یا رونے دھونے یا کسی کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہوگا، دن بدن بس یہ ظلم و جبر بڑھتا رہے گا، اور یہی ہو رہا ہے۔اس سب کا ایک ہی حل ہے اگر پاکستان کے تمام طلبہ، مزدور اور کسان متحد ہو کر آواز اٹھائیں، کوئی ناانصافی کوئی رکاوٹ برداشت نہ کریں، اور یہ ایک کے کرنے سے نہیں ہوگا۔ بلکہ تب ہوگا جب ہم سب ان مظالم کیخلاف ایک ہوجائیں اور پھر ہمیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔