نئے پاکستان میں وہی پرانا ’پروٹوکول‘

|تحریر: عبداللّٰہ عرفان ملک|

انتظامیہ جامعہ زکریا ملتان نے صدر عارف علوی کی یونیورسٹی آمد پر تدریسی سرگرمیاں معطل اور پیپر ملتوی کردیے۔ اب ذرا اس تبدیلی پر مختصر تبصرہ کہ، پچھلے 5 سالوں کی الیکشن کمپئین کے دوران عمران خان نے تبدیلی کے جتنے بڑے نعرے لگائے وہ اتنا جلدی ہی ایوانوں کی عیاشی پسند زندگی کی نظر ہو گئے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ لگتا تھا کہ یہ شخص اوروں کی طرح نہیں ہے اور کچھ نیا ضرور کرے گا اور نیا پاکستان بنائے گا۔ 
مگر اب تبدیلی کے بعد سامنے آنے والے نئے مناظر کچھ اس طرح سے ہیں کہ اب وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو چکا ہے!

کل بروز جمعرات مورخہ 8 نومبر کو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ہونے والی صوفی کانفرنس میں صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعلٰی پنجاب کی موجودگی کی وجہ سے کلاسز بھی نہیں ہوں گی اور طلباء کو قید میں رکھا جائے گا۔ طلباء کوجامعہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی اور ہاسٹلز کے طلباء کو زبردستی ہاسٹلز میں نظر بند کر دیا جائے گا۔ بقول تبدیلی سرکار کے یہ سارے کام تو پچھلی عیاش حکومتیں کرتی رہی ہیں، خان صاحب تو نہایت ہی سادہ انسان ہیں اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی انکی پوری ٹیم بھی جذبہ محب الوطنی میں کسی سے کم نہیں۔ تو پھر یہ سب کیوں؟ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارے ماں باپ کی کمائی حرام کی ہے یا انہیں آپ خیرات دے کر پال رہے ہیں؟

تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی ضرورتوں تک پر تو آپ لوگوں نے اربوں اور کھربوں کے کاروبار شروع کیے ہوئے ہیں۔ تعلیم اور صحت کو کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے۔ ریاست اپنی کونسی آئینی ذمہ داری پوری کر رہی ہے؟ سب شہریوں کو مفت اور معیاری تعلیم دینا کیا چین کی ذمہ داری ہے یا مریخ سے کوئی قوم آ کر ہمیں دے گی؟ پھر ٹیکس کس چیز کا لیتے ہو؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صدر یا اس جیسے اور حکمران اس لائق ہی نہیں کہ انہیں کسی بھی قسم کی کوئی سیکورٹی مہیا کی جائے۔ سیکورٹی اس کو دی جائے جو عوام کے کیلئے کچھ کر رہا ہو۔۔آپ کیا کر رہے ہیں؟ عام انسان کی جان اور مال میں سے کچھ بھی اس ملک میں محفوظ نہیں، نہ تعلیم ہے نہ علاج، نہ روٹی ہے، نہ چھت، پھر کہاں کی ریاست اور کہاں کی حکومت، کیسا صدر اور کیسا وزیر اعلی؟ کب تک مزید اس تبدیلی کا ڈھونگ رچایا جائے گا؟

میں شاکر بکھ دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کینی
قلم خیرات میڈی ہے چلیندییں شام تھی ویندی ہے

مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ میرا کام ہر غلط کام کے خلاف آواز اٹھانا ہے اور یہ میں بخوبی کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام طلبہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اس گھٹیا نظام کے خلاف آواز اٹھائیں، اپنے حق کیلئے لڑئیں اور للکاریں ان حکمرانوں کو جو ہمارے خون اور پسینے کی کمائی پر پلتے ہیں اور پھر ہمیں ہی یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے حکمران ہیں۔۔نہیں یہ ہمارے حکمران، ہم خود اپنے حکمران ہیں۔

چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے

تبدیلی گئی تیل لینے۔۔۔ واہ رے حاکم تیری تبدیلی!

طلبہ اتحاد زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.